شیر خوار بچے کی قے پاک ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر:41
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب شیر خوار بچے کی قے پاک ہے یا ناپاک؟ اگر ناپاک ہے تو غلیظہ ہے یا خفیفہ؟.؟تفصیلی جواب عنایت فرمائے۔(مستفتی: مولانا محمد مجیب الرحمٰن غفرلہ،امام وخطیب گوپال نگر جامع مسجد،ہوجائی آسام،الھند۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 التوفیق وبہ التوفیق
منہ بھر کر قے مطلقاً نجس ہے،اور نجاستِ  غلیظہ ہے،
 چایے بڑے آدمی کے معدے سے آئے یا شیرخوار بچے کے معدے سے،لہذا صورت مسئولہ میں بچے نے اگر منہ کر قے کیا اور وہ قے کپڑے یا جسم میں ایک درہم یا اس سے زیادہ مقدار میں لگ گیا تو اسکے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا،اس کا صاف کرنا ضروری ہوگا۔اور اگر اس سے کم مقدار کپڑے پر لگی ہو اور نماز ادا کرلی تو نماز ہو جائے گی، تاہم نماز سے پہلے معلوم ہو تو صاف کرلینا چاہیے۔اور اگر قے منہ بھر نہیں کیا ہے تو نجس نہیں ہے،واضح رہے کہ بچے کی وہ قے ناپاک ہے جو معدے کی طرف سے آئے اور منہ بھر کر ہو، اگر دودھ وغیرہ پینے یا کچھ کھانے کے بعد وہ منہ سے بہہ جائے تو وہ ناپاک نہیں ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں لکھا ہے کہ
چھوٹا بچہ جب قے کرے تو اس کے منہ کا اعتبار ہوگا،اگرمنہ بھر کر کرے تو اس کے وہی حکم ہوگا جو بڑے آدمی کی منہ بھر کر قے کا ہے،جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو وہ ناپاک ہے اس کا پاک کرنا ضروری ہے اگر وہ مقدارِ درہم ہو تو نماز سے پہلے اس کو پاک کرنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔(فتاویٰ محمودیہ۲۲۶/۵تا۲۲۷،باب الانجاس،مکتبہ فاروقیہ کراچی

عبارت ملاحظہ فرمائیں
(وَ) ينقُضه (قيْء مَلَأَ فاهُ) بأنْ يضبط بتكلُّف (منْ مرة) بِالكسْر: أَي صفْراءَ (أَوْ عَلقٍ) أَيْ سوداء؛ وَأما الْعلق النازل منْ الرأس فغير ناقض (أوْ طعام أوْ ماء) اذا وَصل إلى معِدَتهِ وَإِنْ لَمْ يسْتقر، وَهوَ نجس مُغَلظ، ولوْ منْ صَبي سَاعة ارْتضاعِه، هوَ الصحيحُ لمُخالطةِ النجاسة.(الدرالمختار ۱۳۷/۱،نواقض الوضو،سعید)(وکذا  في ’’ حلبي کبیر ,ص/۱۲۹ ، کتاب الطہارۃ ، فصل في نواقض الوضوء ،سہیل اکیڈمی ،لاہور
قال الحسن : إذا تناول طعاماً أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض لأنہ طاہر حیث لم یستحل وإنما اتصل بہ قلیل القيء فلا یکون حدثاً فلا یکون نجساً ، وکذا الصبي إذا ارتضع وقاء من ساعتہ وصحیحہ في المعراج وغیرہ ، ومحل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر ، أما لو قاء قبل الوصول إلیہا وہو في المرئی فإنہ لا ینقض اتفاقاً کما ذکرہ الزاہدي ، وفي فتح القدیر : لو قاء دودًا کثیرًا أو حیۃ ملأت فاہ لا ینقض لأن ما یتصل بہ قلیل وہو غیر ناقض.(البحر الرائق ۱۶۷/۱،کتاب الطہارۃ 
وهو عند الحنفية نجس إذا كان ملء الفم أما ما دونه فطاهر على ما هو المختار من قول أبي يوسف.(الموسوعة الفقهیة الكويتية،١٦٤/٤٠)(مستفاد:فتاویٰ حقانیہ ۶۰۷/۲)(نجم الفتاوی۱۳۲/۲) فتاویٰ محمودیہ ۲۲۷/۵تا۲۲۸،باب الانجاس،مکتبہ: فاروقیہ کراچی)(المسائل المہمہ ۶۷/۵)(کتاب المسائل۱۱۱/۱)دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:فتوی نمبر :144012200312
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
بیس رمضان المبارک 1441ھ بمطابق 14مئی2020ء
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے