کنویں کی ناپاکی کا علم نہ ہو تو نمازوں کا اعادہ کب سے کریں

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

کنویں میں کوا ،گر کر مرجائے اور پھو ل جائے،تو کتنا پانی نکالا جائےگا؟

سوال:
مسجد کے احاطہ میں ایک کنواں ہے، جس کے پانی کا استعمال وضو اور استنجاء وغیرہ میں ہوتا ہے، اِس کنویں میں ایک کو ّا ،گر کر مر گیا ، بدبو آنے پر دیکھا گیا، تو وہ پھولا ہوا نکلا، اب تک پھٹا نہیں تھا، تو کیا اِس کنویں کو پاک کرنے کے لیے اُس کا تمام پانی نکالنا ضروری ہے؟ یا کچھ مقدار میںپانی نکال دینے سے کنواں پاک ہو جائے گا؟

الجواب حامداً و مصلیا:
کوّا کنویں میں گرنے کے بعد مر کر پھول گیا ہو یا باہر مرنے کے بعد پھولا ہوا کوا کنویں میں گرا ہو، دونوں صورتوں میں کنویں کا پورا پانی نکالنا واجب ہے؛ لیکن اگر کنواںایسا ہےکہ اس کا پورا پانی نکالنا مشکل ہے، تو دوایسے دین دار آدمی ،جن کو پانی کے باب میں صحیح اندازہ لگانے کی مہارت ہو، اُنہیں بلاکر اِتنا پانی نکال دیا جائے، جتنا کنویں میں کوّے کے پائے جانے کے وقت تھا، مثلاً جس وقت کوّے کا مر کر پھول جانا معلوم ہوا، اُس وقت پچاس فٹ تک پانی تھا، تو اولاًکوّے کونکالنے کے بعد پچاس فٹ تک کا پانی نکالا جائے، تا ہم احتیاط اِسی میں ہے کہ پہلی صورت کے مطابق پورا پانی خالی کر دیا جائے۔(درمختار مع شامی : ۱؍۱۵۶) [۱](فتاوی فلاحیہ۱۲۱/۲)

فقط، واللہ اعلم بالصواب
——————————————————————-[۱](إذا وقعت نجاسة)…(في بئر دون القدر الكثير)…(أو مات فيها) أو خارجها وألقي فيها ولو فأرة يابسة على المعتمد…كسقط (حيوان دموي) غير مائي لما مر (وانتفخ) أو تمعط (أو تفسخ) ولو تفسخه خارجها ثم وقع فيها(ينزح كل مائها)الذي كان فيها وقت الوقوع ذكره ابن الكمال(بعد إخراجه)…(وإن تعذر) نزح كلها؛ لكونها معينا (فبقدر ما فيها) وقت ابتداء النزح ،قاله الحلبي (يؤخذ ذلك بقول رجلين عدلين لهما بصارة بالماء) به يفتى، وقيل يفتى بمائة إلى ثلثمائة وهذا أيسر، وذاك أحوط.(الدر مع الرد:۱؍۲۱۱- ۲۱۵، كتاب الطهارة، فصل في البئر ،ط:دارالکتب العلمیۃ-بیروت)
=================================

کنویں میں مر کر پھولا ہوا کو ّا پایا جائے،تو کتنے دِن کی نماز کا اعادہ ضروری ہے؟
سوال:
ایک کنویں میں مر کر پھولا ہوا کو ّا پایا گیا، تو اِس کنویں کے پانی سے وضوء اور غسل کر کے جو نمازیں پڑھی گئی ہیں، اُن کے دہرانے کا کیا حکم ہے؟

الجواب حامداً و مصلیا:
جانور مر کر پھول گیا ہے؛ اِس لیے اگر اُس کے گرنے کا وقت معلوم ہو، تو اُس وقت سے، اور اگر گرنے کا وقت معلوم نہ ہو، تو تین دِن سے کنواں ناپاک سمجھا جائے گا؛ لہٰذا اِن تین دِنوں کے دوران اُس پانی سے وضوء اور غسل کر کے جو نمازیں پڑھی گئی ہیں، اُن کا اعادہ ضروری ہے، نیز اُس پانی سے برتن یا کپڑے وغیرہ دھوئے گئے ہوں ،تو اُن کو بھی پاک کرنا ضروری ہے۔(۲)(فتاوی فلاحیہ۱۲۲/۲)

فقط واللہ اعلم بالصواب
——————————————————————-
(۲)” وإن وجدوا في البئر فأرة أو غيرها، ولا يدري متى وقعت، ولم تنتفخ، ولم تتفسخ، أعادوا صلاة يوم وليلة، إذا كانوا توضئوا منها، وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها، وإن كانت قد إنتفخت، أو تفسخت، أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها، وهذا عند أبي حنيفة رحمه اللہ. وقالا: ليس عليهم إعادة شيء، حتى يتتحققوا متى وقعت ".(الهداية في شرح بداية المبتدي-علي بن أبي بكر،الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن،برهان الدين (م:۵۹۳هـ): ۱؍۲۵، کتاب الطھارات،باب: الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز،فصل في البیر،ت: طلال يوسف،ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت – لبنان٭الجوهرة النيرة- أبو بكر بن علي بن محمد الحدادي العبادي الزَّبِيدِيّ اليمني الحنفي (م:۸۰۰هـ):۱؍۱۹،کتاب الطھارۃ،الأغسال المسنونة،ط:المطبعة الخيرية٭البناية شرح الهداية- أبو محمد محمود بن أحمد ، الحنفى، بدر الدين العيني (م:۸۵۵هـ):۱؍۴۶۱،کتاب الطھارات، فصل في البئر،حكم وقوع النجاسة في البئر،ط: دار الكتب العلمية – بيروت٭البحر الرائق شرح كنز الدقائق-زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (م:۹۷۰هـ):۱؍۱۳۰،قبیل التیمم،[التداوي ببول ما يؤكل لحمه]،ط: دار الكتاب الإسلامي٭ رد المحتار: ۱؍۲۱۸- ۲۱۹،کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ط:بیروت٭اللباب في شرح الكتاب-عبد الغني بن طالب، الغنيمي الدمشقي الميداني الحنفي (م:۱۲۹۸هـ):۱؍۲۸،قبیل باب التیمم،ت: محمد محيي الدين عبد الحميد،ط: المكتبة العلمية- بيروت٭الفتاوى الهندية- لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي: ۱؍۲۰،کتاب الطھارۃ،الباب الثالث في المياه …إلخ،الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ،ط: دار الفكر)
=================================
کنویں میں کوّا مرکر پھولا ہوا پایا جائے ،تو کتنا پانی نکالا جائے گا؟
سوال:
ہمارے گاؤں کرنج کی مسجد کے کنویں میں ایک کوّا یا اُس کا بچہ مر کر پھولا ہوا پایا گیا، اُس کے کنویں میں گرنے کاوقت کسی کو معلوم نہیں ہے؛ اِس لیے گاؤں کے لوگوں نے موٹر کے ذریعہ تقریبا ًپانچ یا چھ گھنٹے تک پانی نکالا، جس سے ۴۵؍ منٹ میں ایک فٹ کے حساب سے پانی نکلا، مزید ستر ڈول پانی نکالے گئے؛ چوں کہ کنویں کی تہہ سے پانی مسلسل نکلتا رہتا ہے، اِس لیے اُس کا مکمل خالی کرنا ممکن نہیں ہے، نیز کنواں بہت پرانا ہے اور اُس کی دیواریں کمزور ہیں، اِس لیے بڑی موٹر کے ساتھ بڑا پائپ فٹ کر کے پانی نکالنے میں کنویں کی دیواریں ٹوٹ کر گرجانے اور کنویں کے ناقابل استعمال ہو جانے کا اندیشہ ہے، تو کیا شرعی اعتبار سے جو پانی نکالاگیا، وہ کافی ہے؟ اور کیا اِتنا پانی نکال دینے سے کنواں پاک ہو جائے گا؟یا کسی بھی شکل میں پورا پانی نکالنا ضروری ہے؟

الجواب حامداً و مصلیا:
صورتِ مذکورہ کا اصل حکم شرعی تو یہی ہے کہ کوّا جب مر کر پھولا ہوا پایا گیا، تو پورا پانی نکال دیا جائے؛ چوں کہ پورا پانی نکالنا مشکل ہے ،تو اب پانی نکالنے سے پہلے دو ایسے نیک اور صالح آدمیوں کو بلا کر اُن سے اندازہ کرنے کو کہا جائے جنہیں پانی کے باب میں تجربہ ہو، کہ کنویں میں پانی کتنا ہوگا؟ مثلاً جانور کے نکالنے کے بعد کنویںمیں بیس فٹ پانی ہے؛لیکن پورا پانی نکالنا مشکل ہے؛ اِس لیے موٹر کے ذریعہ بیس فٹ پانی نکالا جائے، سوال میں مذکور صورت کے اعتبار سے جب پونے گھنٹے میں ایک فٹ پانی نکلا، تو بیس فٹ کے برابر پانی نکالنے کے لیے پندرہ گھنٹے تک موٹر چلاکر پانی نکالنا ہوگا، اِس صورت میں بعض فقہاء نے تین سو ڈول پانی نکالنے کو کافی قرار دیا ہے، اگر اِس طرح سے پانی نکال دیا جائے، تب بھی کافی ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (شامی : ۱؍۱۵۶)[۱](فتاوی فلاحیہ۱۲۳/۲)

فقط واللہ اعلم بالصواب
——————————————————————-
[۱](إذا وقعت نجاسة)…(في بئر دون القدر الكثير)…(أو مات فيها) أو خارجها وألقي فيها ولو فأرة يابسة على المعتمد…كسقط (حيوان دموي) غير مائي لما مر (وانتفخ) أو تمعط (أو تفسخ) ولو تفسخه خارجها ثم وقع فيها(ينزح كل مائها)الذي كان فيها وقت الوقوع ذكره ابن الكمال(بعد إخراجه)…(وإن تعذر) نزح كلها؛ لكونها معينا (فبقدر ما فيها) وقت ابتداء النزح ، قاله الحلبي (يؤخذ ذلك بقول رجلين عدلين لهما بصارة بالماء) به يفتى،وقيل يفتى بمائة إلى ثلثمائة وهذا أيسر، وذاك أحوط.(الدر مع الرد:۱؍۲۱۱- ۲۱۵، كتاب الطهارة، فصل في البئر ، ط:دارالکتب العلمیۃ-بیروت)
=================================
کنویں کی ناپاکی کا علم نہ ہو تو نمازوں کا اعادہ کب سے کریں؟

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: مسجد کا ایک کنواں نالے کی غلاظت اس میں جانے کی وجہ سے ناپاک ہوا، ناپاک پانی اس میں کب سے گر رہا تھا صحیح علم نہیں، تاہم ناپاکی آنے کے راستہ کا نشان بتا رہا ہے کہ کم از کم تین چار ماہ سے مستقل وہ ناپاکی کنویں میں آرہی تھی، اب کنواںپاک کردیا گیا اور ناپاکی کے راستہ بھی بند کردئے گئے، دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس کنویں سے وضو کرکے جتنی نمازیں پڑھی گئیں ان کا اعادہ ضروری ہے یانہیں؟ جب کہ کنویں کے ناپاک ہونے کی ابتداء کسی کو معلوم نہیں یا جس دن ناپاکی کا علم ہوا اس دن سے جو نماز پڑھی گئی، ان نمازوں کا اعادہ کرے جیسا کہ جانور کے مرنے اور پھولنے پھٹنے کے مسئلہ میں صاحبین کا قول ہے یا تین دن قبل سے نماز کا اعادہ کرے جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک ہے جو شکل بھی ہو واضح کریں۔

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب کنویں کے ناپاک ہونے کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، تو صاحبین کے قول پر عمل کرکے جس وقت یقین ہوا ہے اس وقت سے کنویں کو ناپاک سمجھا جائے گا، اس کے بعد جن لوگوں نے وضو کیا ہے، ان کو اس وقت سے نمازیں لوٹانی ہوںگی، اس سے پہلے کی تمام نمازیں صحیح مانی جائیںگی۔ (مستفاد: عزیز الفتاوی/ ۱۶۸)

عن ابن جریج قال: قلت لعطاء: فأرۃ وقعت في جر فماتت فیہ، فقال: لا یتوضأ منہ، فإن توضأت ولم تعلم، ثم صلیت ولم تعلم، فعد ما کنت في وقت، قال: فإن فاتک الوقت، فعد أیضا، قلت: فثوبي مسہ من ماء تلک الجرۃ شيء أغسلہ أو أرشہ؟ قال: لا۔(مصنف عبدالرزاق، المجلس العلمي ۱/ ۸۷، رقم: ۲۹۰)
قالا: من وقت العلم فلا یلزمہم شيء قبلہ، قیل: وبہ یفتي، وتحتہ في الشامیۃ: فلا یلزمہم أي أصحاب البئر شيء من إعادۃ الصلوۃ أو غسل ما أصابہ مائہا کما صرح بہ الزیلعي … وقولہ: بأن قولہما قیاس، وقولہ: استحسان، وہو الأحوط في العبادات۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب … تعریف الاستحسان، زکریا ۱/ ۳۷۸، کراچی ۱/ ۲۱۹، تاتارخانیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز الوضوء بہا، زکریا ۱/ ۳۲۵، رقم: ۵۸۵، حلبي کبیر، فصل في البئر، أشرفیہ، ص: ۱۶۰، المبسوط للسرخسي، باب الوضوء والغسل، مکتبہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱/ ۵۹، تبیین الحقائق، کتاب الطہارۃ، مکتبہ إمدادیہ، ۱/ ۳۰، زکریا ۱/ ۱۰۲، البنایۃ، کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۱/ ۴۶۱)
مگر امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرکے تین دن کی نمازیں لوٹا لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔(فتاوی قاسمیہ۱۲۰/۵)
==================================
کبوتر وغیرہ کے کنویں میں گرنے کے بعد نہ ملنے پر کنویں کی پاکی کا حکم
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا ایک کنواں ہے جس سے ہم پانی لیتے رہتے ہیں اس کنویں میں دو کبوتر گر گئے باوجود تلاش کرنے کے وہ نہیں ملے تو اس کنویں سے پانی پینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس کنویں کو کس طرح پاک کریں گے؟

الجواب بعون الملک الوھاب
کنویں میں اگر حیوان گر کر پھول جائے یا پھٹ جائے خواہ حیوان چھوٹا ہو یا بڑا ، اس کے پاک کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ گری پڑی نجس چیز کو پہلے نکال لیا جائے پھر اس کے بعدکنویں میں موجود سارا پانی نکال لیا جائے اور اگر کنواں چشمے دار ہو تو دو سو ڈول وجوباً نکا لنے ہوں گے اور استحبا با تین سوتک نکا ل لیے جا ئیں اب مذکورہ بالا صورت میں یہ بات تو ظاہر ہے کہ کبوترپھول وپھٹ گئے ہوں گے لیکن چونکہ تلاش کرنے کے بعد نہیںملے جبکہ پاکی کیلئے نجس چیز کا پہلے، نکالنا ضروری ہے اس لئے فی الحال اس کنویں کو چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ اس بات کا یقین ہوجائے کہ وہ پانی میں حلول کرکے کیچڑ بن گئے ہوں گے بعض فقہاء کرام نے اس مدت کا اندازہ چھ ماہ سے لگایا ہے لہٰذا اتنی مدت گزر جانے کے بعد اس کنویں کا سارا پانی اور اگرکنواں چشمے دار ہو تو تین سو ڈول نکال لئے جائیں تو وہ کنواں پاک ہوجائے گا اس سے قبل اس کنویں سے پانی پینا جائز نہیں ہے۔

لمافی الشامیۃ (۲۱۲/۱): أنہ لابد من إخراج عین النجاسۃ کلحم میتۃ وخنزیر اھـ ح قلت فلو تعذر ایضاً ففی القھستانی عن الجواھر۔ لووقع عصفور فیھا فعجزوا عن اخراجہ فما دام فیھا فنجسۃ فتترک البئر مدۃ یعلم انہ استحال وصار حمأۃ وقبل مدۃ ستۃ اشھر۔ 
وفی الفقہ الاسلامی(۲۹۱/۱): وینزح مابین اربعین دلواً الی ستین دلواً اذا کان الحیوان ذا حجم متوسط مثل الحمامۃ والدجاجۃ …وفی الاثنین من ھذہٖ الحیوانات ینزح الماء کلہ۔
وفی الدر المختار(۲۱۴/۱۔۲۱۵): (وان تعذر) نزح کلھا لکونھا معینا (فبقدر ما فیھا) وقت ابتداء النزح قالہ الحلبی (یؤخذ ذلک بقول رجلین عدلین لھما بصارۃ بالماء) بہ یفتی وقیل یفتی بمائۃ إلی ثلثمأئۃ وھذا ایسرو ذاک احوط۔(نجم الفتاوی۱۶۲/۲)
__________________
لما روى الطحاوي عن الشعبي في الطير والسنور ونحوهما يقع في البئر قال: ينزح منها أربعون دلوا. وعن النخعي في السنور: مثله. وعنهما: ينزح منها سبعون. وعن حماد بن أبي سليمان في دجاجة وقعت في البئر نزح منها قدر أربعين أو خمسين ثم يتوضأ منها، وهو المذكور في «الجامع الصغير». وروى ابن أبي شيبة عن عطاء كما روى الطحاوي عن حماد (إلى ستين) استحبابا، لما روي عن الأولين. وقيل: إلى خمسين لما روي عن عطاء وحماد.(فتح باب العناية بشرح النقاية 1/ 87)مستفاد:(جامع الفتاوی مدلل۵۵۲/۴)

فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے