قرض لیکر قربانی کرنے کا حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا قرض لیکر قربانی کرنا جائز ہے ؟اسی طرح مقروض پر قربانی واجب ہے؟(المستفتی:حافض ریاض الرحمن غفرلہ امام وخطیب دلباری جامع مسجد مریگاؤں آسام الھند)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وبہ التوفیق
غیر صاحب نصاب کو قرض لیکر قربانی نہیں کرنا چاہیے اسلئے کہ شریعت نے اسے اس چیز کا مکلف نہیں بنایا ہے تاہم غیر صاحب نصاب اگر قرض لیکر قربانی کرے گا تو اسے ثواب بھی ملیگا اور اسکی قربانی بھی درست ہو جائے گی،اور صاحب ثروت کے پاس اگر حاجات اصلیہ کے علاؤہ بقدر نصاب مال ہو تو اس پر قربانی واجب ہے،اور اسکے لئے قرض لیکر قربانی کرنا ضروری ہے،اسی طرح مقروض کے پاس بعد ادائیگی قرض ومعاش کے بقدر نصاب مال ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، ورنہ نہیں۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
يجوز البيع بثمن حال، أو مؤجل إذا كان الأجل معلوما، بدليل: إطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع}فشمل ما بيع بثمن حال وما بيع بثمن مؤجل. عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم من يهودي طعاما إلى أجل ورهنه درعا من حديد.(شرح فتح القدیر٢٤٢/٦،کتاب البیوع،دار الکتاب العلمیہ بیروت) البنایہ شرح ہدایہ٣٠/٧تا٣١،دار الفکر) الموسوعة الفقهية الكويتية٣٨/١٥)۔
له مال كثير غائب في يد مضاربه أو شريكه ومعه من الحجرين أو متاع البيت ما يضحي به تلزم، وتمام الفروع في البزازية وغيرها.(الدر المختار مع الشامی٤٥٣/٩کتاب الاضحیۃ،دار الکتاب العلمیہ بیروت) الفتاوی الہندیۃ٣٨٠/٥کتاب الأضحیۃ/باب المتفرقات،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة………….۔
(وأما) (حكمها) : فالخروج عن عهدة الواجب في الدنيا والوصول إلى الثواب بفضل الله تعالى في العقبى، كذا في الغياثية. والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها۔……………..ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب، وكذا لو كان له مال غائب لا يصل إليه في أيامه، ولا يشترط أن يكون غنيا في جميع الوقت حتى لو كان فقيرا في أول الوقت، ثم أيسر في آخره تجب عليه.(الفتاوی الہندیہ٣٦٠/٥تا٣٦١،کتاب الاضحیۃ/باب تَفْسِيرِهَا وَرُكْنِهَا وَصِفَتِهَا وَشَرَائِطِهَا وَحُكْمِهَا،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
ولو كانعليه دين بحيث لو صرف إليه بعض نصابه لا ينقص نصابه لا تجب لأن الدين يمنع وجوب الزكاة فلأن يمنع وجوب الأضحية أولى ؛ لأن الزكاة فرض والأضحية واجبة والفرض فوق الواجب.(بدائع الصنائع۲۸۳/٦کتاب الاضحیۃ،دار الکتاب العلمیہ بیروت)(مستفاد:احسن الفتاوی۵۱۳/۷کتاب الاضحیۃ،ایچ ایم سعید)المسائل المہمۃ۱۵۸/۶)کتاب الفتاویٰ۱۳۳/۴تا۱۳۴) آپ کے مسائل اور انکا حل ۴۲۶/۵،مکتبہ لدھیانوی کراچی)دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:144012200179)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۴ذوالحجہ ۱۴۴۱؁ھ م۲۶ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز اتوار

تائید کنندہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی عفی عنہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے