قربانی کے بڑے جانور کے ساتھ عقیقہ کا حصّہ رکھنا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر 58
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا جائز ہے؟مفصل جواب مطلوب ہے.(مستفتی: محمد ریاض الرحمن غفرلہ امام و خطیب دلباری جامع مسجد مریگاوں آسام الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
 قربانی کے بڑے جانور میں نذر ومنت، نفل واجب قربانی، اسی طرح عقیقہ کا حصہ لینا بھی درست ہے،بس شرط یہ ہے کہ سب شرکاء کی نیت قربت خداوندی ہو،کسی کی نیت گوشت کھانے کی نہ ہو،اگر کسی شریک کا گوشت کھانے کی نیت ہوگی تو قربانی درست نہیں ہوگا،لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ چاہے تو بڑے جانور میں عقیقہ و قربانی دونوں کی نیت کرسکتے ہیں قربانی درست ہو جائیگی۔ 

کتاب الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ
جیسے قربانی کا مقصد اللہ تعالی کی قربت اور عبادت ہے ، ویسے ہی عقیقہ کا مقصد بھی شکرانہ کے طور پر عبادت اور قربت ہی ہے ، اس لئے فقہاء نے دونوں کو ایک ہی حکم میں رکھا ہے ، دو بکرے کی جگہ دو حصہ اور ایک بکرے کی جگہ ایک حصہ بھی عقیقہ کے لئے کافی ہے ، نیز یہ بات بھی درست ہے کہ ایک ہی جانور میں کچھ حصے قربانی کے ہوں اور کچھ عقیقہ کے ،فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر عبادت کی جہتیں الگ الگ ہوں اور ایک جانور میں ان کے حصے کئے جائیں تو یہ بھی درست ہے ، اس میں یہ صراحت بھی ہے کہ قربانی کے ساتھ عقیقہ کے حصے لئے جاسکتے ہیں۔(کتاب الفتاوی ١٦٨/٤تا١٧٠،قربانی اور عقیقہ کے متعلق سوالات)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
ولو نوي بعض الشركاء الاضحية وبعضهم هدي المتعة وبعضهم دم العقيقة لولد ولد له في عامه ذلك جاز عن الكل في ظاهر الرواية.(فتاویٰ قاضی خان ٢٣٧/٣کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)(تاتارخانیۃ٤٥٢/١٧،رقم: ۲۷۸۰۳،زکریا)۔
وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد۔ (شامی، کتاب الأضحیۃ،٤٧٢/٩کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت، کراچی۳۲٦/٦)۔
لا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأسا، فإن شارك لم يجز عن الأضحية، وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم تجز عن القربة، ولو أرادوا القربة الأضحية أو غيرها من القرب أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى، وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل۔(الفتاوی الهندیہ٣٧٥/٥،کتاب الاضحیۃباب فیما یتعلق فی الشرکۃ فی الضحایا،دار الکتب العلمیہ بیروت) تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق٤٨٤/٦کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)بدائع الصنائع٣٠٥/٦تا٣٠٦،کتاب التضحیۃ، فصل شرائط جواز إقامۃ الواجب،دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
وان كان شريك الستة نصرانيا أو مريد اللحم لم يجز عن واحد منهم لأن الاراقة لا تتجزء۔(مجمع الانہر١٧٣/٤کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت) تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق٤٨٤/٦،کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)البنایہ شرح ہدایہ٣٨/١٢تا٤٠،دار الکتب العلمیہ بیروت)الدر المختار مع الشامی٤٧٢/٩،کتاب الاضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)(فتاویٰ محمودیہ۵۱۹/۱۷تا۵۲۱،کتاب العقیقہ،مکتبہ:جامعہ فاروقیہ کراچی) فتاویٰ قاسمیہ۳۵۲/۲۲تا۳۵۴)(فتاویٰ محمودیہ۴۴۰/۱۷تا۴۴۲،باب ما قسمۃ اللحم ومصرفہ وبیعہ،جامعہ فاروقیہ کراچی)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۔۴ذوالحجہ ۱۴۴۱؁ھ م۲۶ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز اتوار

تائید کنندہ
 مفتی سعود مرشد القاسمی بانکوی غفرلہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی عفی عنہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے