مسائل قربانی قربانی کے ایام کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ Masail Qurbani

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں


دھوکے بازوں نے جن احادیث وآیت کریمہ سے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے ان آیاتوں واحادیث مبارکہ کا صحیح مطلوب دیکھئے:




پہلی آیت کریمہ کا جواب:
پہلی آیتِ کریمہ: {وَیَذْکُرْوْا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ} سے کیا مراد ہے؟ وہ ہم نے شروع میں ذکر کر دیا کہ اس سے مراد قربانی کے تین ہی دن ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ، حضرت علیؓ، حضرت ابن عمرؓ ، حضرت ابن مسعود رضیﷲ عنہ، حضرت انسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت جابر بن عبدﷲؓ جیسے کبار صحابہ کا یہی مسلک ہے، اس لئے چند حضرات مفسرین کے اقوال کا سہارا لے کر مذکورہ آیت سے قربانی کے ۴؍دن جائز ہونے پر استدلال درست نہیں۔ 
دوسری آیت کریمہ کا جواب:
رہی بات دوسری آیتِ کریمہ: {وَیَذْکُرْوْا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ} کا تو اس میں دور دور تک کہیں بھی قربانی کے تین یا چار دن کے جواز اور عدم جواز کی کوئی دلیل نہیں، اور نہ ہی اس آیت مبارکہ کا تعلق قربانی سے ہے، یہ تو کتابچہ کے مؤلف موصوف کی چابکدستی اور عوام الناس کی آنکھوں میں خواہ مخواہ آیت کا اضافہ کرکے دھول جھونکنے کی مذموم کوشش معلوم ہو رہی ہے ، اس آیت کا تعلق ’’رمی جمار‘‘ یعنی حج میں کنکری مارنے سے ہے، ’’وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ‘‘ سے مراد تکبیراتِ تشریق ہے، جو اِن دنوں میں پڑھنا واجب ہے، اور {فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ} کا تعلق رمی جمار سے ہے، زمانۂ جاہلیت میں اِس سلسلہ میں اختلاف تھاکہ تین دنوں تک کنکری مارنا ضروری ہے یا دو دن میں بھی کنکری مارکر واپس آسکتے ہیں، اِس لئے اِن دونوں فریقوں میں بطور فیصلہ یہ کیا گیا کہ تین دن تو بہتر ہیں، مگر کوئی دو ہی دن میں کنکری مارکر واپس آنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اِس کی تفصیل کے لئے دیکھئے: علامہ شوکانی کی تفسیر (فتح القدیر ۱؍۲۰۵ مطبوعہ مکہ المکرمہ اور معارف القرآن ۱؍۴۳۷)
یہی بات امام ابو بکر جصاص رازی لکھتے ہیں:
{فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ} واتفق أہل العلم علی أن قولہ بیان لمراد الآیۃ في قولہ أیام معدودات (احکام القرآن) یعنی فمن تعجل الخ ایام معدودات کی مراد (یعنی کنکری مارنا) کا بیان ہے، اور اِسی بات پر اہل علم حضرات کا اتفاق ہے، اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آگے رقم طراز ہیں کہ: 
فمن تعجل في یومین فلا إثم علیہ، وذٰلک لا یتعلق بالنحر، وإنما یتعلق برمي الجمار المفعول في أیام التشریق۔ (أیضاً)

فمن تعجل في یومین الخ اِس آیت کا تعلق قربانی سے ہے ہی نہیں؛ بلکہ اس کا تعلق رمی جمار سے ہے، جو ایامِ تشریق میں کیاجاتا ہے۔ 
لہٰذا اِس آیت سے استدلال درست نہیں: 

نقل کی گئی احادیث کے جوابات 

اَب ہم کتابچہ میں مذکور احادیثِ مبارکہ کے جوابات پیش کرتے ہیں۔

پہلی روایت کا جواب:
پہلی روایت جو کتابچہ میں پیش کی گئی ہے ’’کل أیام التشریق ذبح‘‘ یہ روایت سلیمان بن موسیٰ عن جبیر بن مطعم کے واسطے سے مروی ہے، اور اِس بات پر تمام ہی اصحابِ جرح وتعدیل کا اتفاق ہے کہ سلیمان بن موسیٰ کی ملاقات حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی ہے؛ لہٰذا درمیان سے کوئی نہ کوئی روای کم از کم ایک ہی سہی ضرور حذف ہوئے ہیں، اس لئے یہ روایت منقطع ہوئی، جیسا کہ خود امام ابن قیم جوزی لکھتے ہیں: لکن الحدیث منقطع لایثبت وصلہ۔ (زاد المعاد ۲؍۳۱۸ بیروت) یعنی یہ حدیث منقطع ہے، اور اس کا موصول ہونا ثابت نہیں، اور اسی روایت کی دوسری سند جو من حدیث سلیمان بن موسی عن عمر بن دینار آئی ہے، یہ گوکہ منقطع نہیں ہے، متصل ہے، مگر اس سند میں بھی ایک راوی ’’ابو سعید‘‘ ہیں جو قابل اطمینان نہیں تھے، دارقطنی میں اس کے بارے لکھا ہے: ’’وأبو معید بمثناۃ فیہ لین‘‘۔ (سنن الدار قطني ۴؍۲۸۴) یعنی ابو معید ’’یا‘‘ کے ساتھ ہے، اور اس میں خفت تھی یعنی یہ راوی ٹھیک ٹھاک نہیں تھے، اس کے علاوہ حضرت جبیر بن مطعمؓ کی روایت میں سنداً اضطراب بھی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ یہ روایت منقطع بھی ہے، اور مضطرب بھی اور دونوں ہی قسمیں ضعیف ہیں اس لئے کہ روایت سے بھی استدلال درست نہیں ہے۔ 
دوسری روایت کا جواب:
دوسری حدیث کے عنوان کے تحت جو حدیث پاک ذکر کی گئی ہے، وہ بلاشبہ سنداً صحیح ہے مگر اس کا تعلق قربانی سے دورکا بھی نہیں، اس میں تو یہ چیز صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ کن کن ایام میں روزہ رکھنا منع ہے، اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پانچ دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے، تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کے ۴؍دن ہیں؟ اس لئے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے یہ لکھنا کہ قربانی کے چار دن ہیں جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
 تیسری روایت کا جواب:
تیسری روایت ’’فجاج منی منحر‘‘ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت بھی منقطع ہے، اس لئے کہ مسند احمد اور ابن حبان میں یہ روایت بسند ’’عبد الرحمن بن حسین عن جبیر بن مطعم‘‘ مروی ہے، اور یہی روایت دار قطنی اور مسند احمد میں بھی بسند سلیمان بن موسی عن جبیر بن مطعم مروی ہے، مگر دونوں سندوں میں انقطاع ہے، اس لئے جس طرح سلیمان بن موسی کی ملاقات حضرت جبیر بن معطمؓ سے ثابت نہیں اسی طرح عبد الرحمن بن حسین کی ملاقات بھی حضرت جبیرؓ سے ثابت نہیں، اس لئے یہ بھی ضعیف روایت ہے، اور اس سے استدلال درست نہیں۔ (عمدۃ القاری ۲۱؍۱۴۸) 
چوتھی روایت کا جواب:
چوتھی روایت: ’’التشریق کلہا ذبح‘‘ یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بطریق ’’معاویۃ بن یحیی الصدفي‘‘ مروی ہے، اور معاویہ بن یحییٰ الصدفی باتفاق محدثین ضعیف ہیں، صاحبِ زاد المعاد ابن قیم اُن کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وفیہ معاویۃ بن یحیی الصدفي وہو ضعیف‘‘ کہ اس سند میں معاویہ بن یحییٰ صدفی ضعیف ہیں۔ (زاد المعاد ۲؍۳۱۸) ان کے بارے میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری لکھتے ہیں: 
معاویۃ بن یحیی ضعفہ النسائي وابن معین، وعلي ابن المدیني، وقال ابن أبي حاتم في کتاب العلل: قال أبي ہٰذا حدیث موضوع بہذا الإسناد۔ (عمدۃ القاري ۲۱؍۱۴۸)

معاویہ بن یحییٰ کو امام نسائی، ابن معین اور علی ابن المدینی نے ضعیف قرار دیا ہے، اور ابن ابی حاتم نے اپنے والد کے حوالہ سے کتاب العلل میں یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ موضوع ہے۔ 
اور اِس روایت کی سند میں شدید اضطراب بھی ہے، اس لئے یہ روایت بھی مضطرب اور ضعیف ہے، جس سے استدلال درست نہیں۔
پانچویں روایت کا جواب :
پانچویں روایت: ’’أیام التشریق کلہا أیام ذبح‘‘ یہ روایت بھی بطریق معاویہ بن یحییٰ عن ابی سعید الخدری‘‘ مروی ہے اور معاویہ بن یحییٰ ضعیف ہیں، جیسا کہ ابھی اوپر چوتھی روایت کے جواب میں گذرا، دیکھئے زاد المعاد ۲؍۳۱۸، عمدۃ القاری ۲۱؍۱۴۸، اور اعلاء السنن ۱۷؍۲۳۴؛ لہٰذا اِس سے استدلال درست نہیں؛ اس لئے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اور ضعیف روایت سے استدلال درست نہیں ہوتا ہے۔ 

چھٹی روایت کا جواب:
یہ روایت: ’’أیام التشریق کلہا أیام ذبح‘‘ بھی ضعیف ہے؛ اِس لئے کہ یہ بھی بطریق ’’معاویہ بن یحییٰ‘‘ مروی ہے، لہٰذا اس سے بھی استدلال درست نہیں، دیکھئے زاد المعاد ۲؍۳۱۸، عمدۃ القاری ۲۱؍۱۴۸۔
ساتویں روایت کا جواب:
ساتویں روایت ’’أیام منی کلہا منحر‘‘ یہ روایت بھی منقطع ہے، دیکھئے علامہ عینی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: 
قلت: ہٰذا رواہ أحمد وابن حبان من حدیث عبد الرحمن بن أبي حسین عن جبیر بن مطعمفیکون منقطعًا۔ (عمدۃ القاري ۲۱؍۱۴۸)

یہ روایت مسند احمد اور ابن حبان میں بسند عبدالرحمن بن حسین عن جبیر بن مطعم مروی ہے، لہٰذا منقطع ہے اس لئے کہ عبدالرحمن کی ملاقات حضرت جبیرؓ سے ہوئی نہیں تھی، لہٰذا اس سے بھی استدلال درست نہیں ہے۔ 

آٹھویں روایت کا جواب:
آٹھویں روایت: ’’أیام التشریق کلہا ذبح‘‘ یہ روایت بھی ضعیف ہے؛ اِس لئے کہ اس کی سند میں ’’معاویہ بن یحی‘‘ راوی ہیں جو باتفاق علماء ضعیف ہیں، جیسا کہ چوتھی روایت کے جواب میں لکھا گیا ہے، دیکھئے زاد المعاد ۲؍۳۱۸، عمدۃ القاری ۲۱؍۱۴۸؛ لہٰذا اِس سے بھی استدلال درست نہیں ہے۔ 
نویں روایت کا جواب:
نویں روایت: ’’أیام التشریق کلہا ذبح‘‘ یہ روایت بھی ضعیف ہے؛ اِس لئے کہ یہ روایت بھی بطریق ’’معاویہ بن یحی عن ابی ہریرۃ‘‘ مروی ہے ، اور معاویہ بن یحییٰ ضعیف ہیں، دیکھئے زاد المعاد ۲؍۳۱۸، عمدۃ القاری ۲۱؍۱۴۸، اور اعلاء السنن ۱۷؍۲۳۴۔ الحاصل یہ کہ یہ کل کی کل نو روایتیں یا تو ضعیف یا پھر منقطع اور مضطرب ہیں، اِس لئے کسی سے بھی استدلال درست نہیں؛ کیوںکہ جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ حلال وحرام کے باب میں ضعیف روایتیں معمول بہا نہیں ہوتی ہیں۔
اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کے جوابات:
ابن کثیر کے حوالہ سے حضرت ابن عمرؓ کا جو قول نقل کیا گیا ہے وہ مسلم نہیں، اس سے زیادہ صحیح اور قوی سند سے حضرت ابن عمرؓ کا جو قول نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں، دیکھئے مؤطا مالک، احکام القرآن، تفسیر مدارک، تفسیر روح المعانی اور زاد المعاد، اور یہی بات بعینہ حضرت ابن عباس اور حضرت علیؓ کے بارے میں ہے کہ ان سے صحیح سندوں کے ساتھ یہی مروی ہے کہ قربانی تین ہی دن تک مشروع ہے۔ دیکھئے: السنن الکبری ۹؍۲۹۷، روح المعانی ۱۰؍۲۱۵، اور زاد المعاد ۲؍۲۱۹۔
اَب صرف اقوالِ صحابہ میں سے حضرت جابر بن عبدﷲ کی بات رہ گئی کہ ’’قربان گاہ منی کی تمام جگہ ہے‘‘ تو اس کے بارے ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں، جن سندوں کے ساتھ یہ روایت مروی ہے وہ منقطع ہے، لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔ دیکھئے: عمدۃ القاری شرح بخاری ۲۱؍۱۴۸ وغیرہ۔
اَب جہاں تک بات رہی صاحبِ تفسیر معالم التنزیل، جامع البیان، مدارک، تفسیر فتح القدیر، خازن، جلالین، ابن کثیر، امام شافعی، امام ابن قیم، حضرت حسن بصری، امام عطاء، امام اوزاعی، امام شوکانی اور امام نووی کی تفسیروں اور شہادتوں کا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی تفسیروں اور شہادتوں کا مدار سورۂ حج کی آیت اور نقل شدہ روایات پر تھا، جن کا جواب دیا جاچکا، تو اَب اُن کا جواب بھی نکل آیا کہ جب اصل ہی ثابت نہیں تو پھر فرع کہاں سے ثابت ہوگا، ایسے ہی حضرت شاہ عبد القادر کی نقل شدہ شہادت کا جواب یہ ہے کہ اس کا مدار حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر پر ہے، اور اس کا جواب دیا جاچکا۔ 
قربانی کے ایام کو چار دن ماننے والوں کے حوالوں کا منہ توڑ جواب۔
(۱) کتابچہ میں ص: ۱۰ پر تفسیر مدارک کے حوالہ سے حضرات صاحبینؒ کا یہ مسلک نقل کرنا سوء فہمی ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں، صاحب تفسیر مدارک نے جو نقل کیا ہے وہ آپ بھی پڑھئے: 
في أیام معلومات – عند صاحبیہ أیام النحر وہو قول ابن عمر۔ (تفسیر مدارک)
ایام معلومات سے مراد حضرات صاحبین کے نزدیک ایام نحر ہیں، اور یہی قول حضرت ابن عمرؓ کا ہے۔
اور ہم پہلے معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ نقل کرچکے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ ایام نحر سے کتنے دن مراد لیتے ہیں، جیساکہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت ابن عمر کا مسلک یہ ہے کہ قربانی کے ۳؍دن ہیں، اور یہی مراد حضرات صاحبین ؒ کی بھی ہے۔ دیکھئے: شامی ۹؍۴۶۱، ہدایہ ۴؍۴۴۶ اور مؤطا امام مالک ۳۱۷ رقم ۱۲، کتاب الضحایا وغیرہ۔ 

(۲) کتابچہ کے صفحہ ۱۳؍پر صاحبِ ہدایہ کے قول کہ ’’ایام تشریق ۴؍دن ہیں‘‘ سے یہ کہنا کہاں لازم آرہا ہے کہ قربانی بھی چار دن تک جائز ہے، صاحبِ ہدایہؒ کا مسلک تو یہ ہے کہ: ’’وہي جائزۃ في ثلاثۃ أیام یوم النحر ویومان بعدہ۔ (الہدایۃ ۴؍۴۳۰) یعنی قربانی تین ہی دن تک جائز ہے اس لئے اس سے قربانی کے چار دن ثابت کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ 
(۳) اِسی طرح کتابچہ کے صفحہ ۱۶ پر حافظ ابن حجرؒ کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ ایامِ معلومات سے مراد عید کا دن اور تین دن اس کے بعد ہیں، بلکہ حافظ ابن حجرؒ کو تو اِس بارے میں تردد ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں یا چار دن ہیں؟ وہ لکھتے ہیں: ویحتمل أن یکون أراد أن أیام النحر الأربعۃ أو الثلاثۃ۔ (فتح الباري ۱۳؍۹ بیروت) احتمال ہے کہ اِس سے مراد ۳؍دن ہوں یا چاردن۔ 
وجوہِ ترجیـح دلائل حضرات ائمہ ثلاثہؒ:
الغرض ماقبل کی اس قدر گفتگو سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ ان حضرات کے نزدیک جو ۴؍دن تک جواز قربانی کے قائل ہیں، کوئی قوی دلیل موجود نہیں، اِس کے برخلاف حضراتِ احناف اور حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے مسلک کہ قربانی صرف تین ہی دن تک جائز ہے، پر الحمد ﷲ صحیح روایات وآثار موجود ہیں، جو شروع میں پیش کئے جاچکے۔ اَب ہم مختصراً حضرات ائمہ ثلاثہ کے مسلک کے دلائل کی وجوہات ترجیح بیان کرتے ہیں: 
(۱) حضرات ائمہ ثلاثہ کے دلائل میںروایات مرفوع اور قوی الاسناد ہیں، جب کہ دیگر حضرات کی مستدل روایات ضعیف، منقطع اور مضطرب ہیں، جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا۔ 
(۲) ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کی مستدل روایات سنداً عالی ہیں، اور دیگر حضرات کی روایات سنداً نازل ہیں۔
(۳) حضرات ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کی مستدل روایات محرم ہیں، اور دیگر حضرات کی روایات مبیح ہیں۔
(۴) حضرات ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کی روایات منفی ہیں، اور دیگر حضرات کی روایات ’’مثبت‘‘ ہیں۔ 
(۵) حضرات ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کی روایات ’’احوط‘‘ ہیں، جب کہ دیگر حضرات کی روایات ’’غیر احوط‘‘۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد پر، مرفوع کو منقطع پر، سند عالی کو سند نازل پر، محرم کو مبیح پر، منفی کو مثبت پر، اور احوط کو غیر احوط پر ترجیح ہوتی ہے؛ لہٰذاان پانچ وجہوں سے حضراتِ ائمہ ثلاثہ رحمہم ﷲ کی مستدل روایات کہ قربانی صرف تین ہی دن تک جائز ہے، اِن روایات پر راجح اور مقدم ہوگی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی ۴؍دن جائز ہے، اِس لئے مطمئن ہوکر بہرحال تین ہی دن کے اندر قربانی کرنی ضروری ہے، اِس کے بعد اجازت نہیں۔(کتاب النوازل ۵۶۹/۱۴تا۵۸۷)نوادر الفقہ:۸۰تا۸۳)شیخ یونس جون پوری)(ایام قربانی کی صحیح تعداد ۲۲تا۲۳)(قربانی صرف تین دن صفحہ: ۸)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام (الھند)
7086592261
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے