قرض لے کر قربانی کرنا

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

قرض لےکر قربانی

مسئلہ نمبر: 71

السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ایک صاحبِ نصاب شخص قربانی کا جانور بطور ادھار لے کر قربانی کرناچاہتا ہے جانور کے رقم کی ادائیگی عیدالاضحٰی کے بعد کریگا  اسکا شرعی حکم کیا ہے مدلل جواب مطلوب ہے  عین نوازش ہوگی

محمد ارشاد ۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب : کسی شخص پر اگر قربانی واجب ہے اور نقد پیسے کا انتظام نہ ہو تو قرض لے کر قربانی کرلے بعد میں ادا کردے۔ اور اگر واجب نہیں بھی ہے لیکن وہ نفلی قربانی کرنا چاہتا ہے اور نقد روپئے موجود نہیں ہیں تو بعد میں ادا کرنے کا انتظام ہونے کی صورت میں قرض لے کر قربانی کرنے میں حرج نہیں ہے، اگر آسانی سے قرض دینے والا مل جائے اور اپنے پاس بعد میں ادا کرنے کی وسعت ہو۔ ورنہ وسعت نہ ہونے کی صورت میں مقروض ہونا ٹھیک نہیں، پھر قربانی کے لیے قرض نہ لے.(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند
فتوی(د): 26=26/1/1431 ، دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر : 143101200531)

(۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل إذا کان الأجل معلومًا ۔ (۳/۲۱)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (وصح بثمن حال) وہو الأصل (ومؤجل إلی معلوم) لئلا یفضي إلی النزاع۔ (۷/۵۲)
ما في ’’ فتح القدیر لإبن الہمام ‘‘ : یجوز البیع بثمن حال ومؤجل لإطلاق قولہ تعالی : {أحل اللہ البیع} وما بثمن مؤجل بیع ۔ وفي صحیح البخاري عن عائشۃ اشتری رسول اللہ ﷺ طعامًا من یہودي إلی أجل ورہنہ درعًا لہ من حدید ۔ (۶/۲۴۲)
(احسن الفتاوی:۷/۵۱۳) بحوالہ المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة ۔  جلد 6:ص 160۔ فقط واللہ أعلم بالصواب۔

مفتی مختار حسین الحسینی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے