کیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے قربانی کو ترک کیا جاسکتا ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 59
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے میری بھابھی اور بھتیجہ زندہ ہے لیکن وہ سب تنگدست ہے کیا میں انکو صدقہ ،زکوۃ کی طرح اس سال اپنے واجب قربانی کے رقم دے سکتا ہوں۔؟(مستفتی:محمد شفیق الرحمن سبزی والا ،احمد نگر ہوجائی آسام الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
قربانی کے ایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے، چناںچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی میں بہایا جانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے؛ لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ایک اور دوسری جگہ مروی ہے کہ جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ  کے قریب ہرگز نہ آئے،اسی طرح حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال  مقیم رہے قربانی کرتے تھے۔نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ جس شخص پر قربانی واجب ہے اسکا ایام قربانی یعنی ذی الحجہ کے دس گیارہ بارہ تاریخ کو قربانی کا جانور یا اُس کی قیمت صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہ ہوگی،ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے ان ایام میں قربانی نہ کرسکا یا جانور خریدنے کا موقع نہیں ملا تو ان صورتوں میں اَیامِ قربانی گذرنے کے بعد اُس پر ایک متوسط جانور کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہوگا، اور اگر اُس نے جانور خرید لیا تھا تو اُس جانور کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں آپ اپنی واجب قربانی ادا کیجئے، ورنہ سخت گناہ ہوگا، اور اپنی بھابی اور بھتیجہ کی فی الحال دیگر رقومات سے مدد کیجئے۔

دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے کہ
جس شخص پر قربانی واجب ہو  اس کے لیے قربانی چھوڑ کر قربانی کی رقم کسی فقیر کو دے دینا شرعاً درست نہیں ہے، اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور  ایسے شخص  کو اگر چہ صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا، لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر گناہ  گار ہوگا، قربانی کرنا ایک مستقل عبادت ہے،اور غریب کی مددایک  دوسری  عبادت ہے۔ ایک عبادت کو بنیاد بنا کر کسی دوسری عبادت کو چھوڑنا کوئی معقول  بات نہیں،  قربانی کے ایام میں صاحب حیثیت شخص پر  قربانی کرنا واجب ہے اور صدقہ کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے……………………۔
قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس قربانی کے ایام میں ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔فتوی نمبر:144112200140)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :ما عمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، وإنه ليؤتى يوم القيامة، بقرونها وأشعارها وأظلافها، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالأرض، فطيبوا بها نفسا.(مشكاة المصابيح١٢٨،كتاب الصلاة،باب في الأضحية،قديمي)۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم:من كان له مال فلم يضح فلا يقربن مصلانا وقال مرة : من وجد سعة فلم يذبح فلا يقربن مصلانا۔(المستدرک علی الصحیحین٢٥٨/٤،کتاب الأضاحی،دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال:أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي۔ رواه الترمذي.(مشكاة المصابيح ص١٢٩،كتاب الصلاة،باب في الأضحية،قديمي)۔
ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية………………….. قوله ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة(الدر مع الشامي٤٦٣/٩تا٤٦٤،کتاب الأضحیۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
وفي الاضاحي للزعفراني: إذا اشتري اضحية فاوجبها ثم باعها ولم يضح ببدلها حتي مضي أيام النحر تصدق بقيمتها التي باع فإن لم يبعها حتى مضت أيام النحر تصدق بها حيه فإن ذبحها وتصدق بلحمها جاز فإن كان قيمتها حية أكثر تصدق بالفضل ولو أكل منها شيئا غرم قيمته لأنه فوت المبتل فيجب عليه البدل.(المحیط البرہاني٩١/٦تا٩٢،کتاب الأضحیۃ،الفصل الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان،دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
ومنها أنه لا يقوم غيرها مقامها في الوقت، حتى لو تصدق بعين الشاة أو قيمتها في الوقت لا يجزئه عن الأضحية،……………ومنها أنها تقضى إذا فاتت عن وقتها، ثم قضاؤها قد يكون بالتصدق بعين الشاة حية، وقد يكون بالتصدق بقيمة الشاة، فإن كان قد أوجب التضحية على نفسه بشاة بعينها فلم يضحها حتى مضت أيام النحر فيتصدق بعينها حية سواء كان موسرا أو معسرا۔(الفتاویٰ الہندیۃ٣٦٣/٥/کتاب الأضحیۃ،باب وجوب الاضحیۃ بالنذر،دار الکتب العلمیہ بیروت)مستفاد:فتاویٰ محمودیہ ۳۰۹/۱۷تا۳۱۰،باب من یجب علیہ الاضحیۃ ومن لایجب،جامعہ فاروقیہ کراچی)جواہر الفقہ۲۷۱/٦،احکام وتاریخ قربانی،دار العلوم کراچی) آپ کے مسائل اور انکا حل٤٣١/٥،قربانی کس پر واجب ہے،مکتبہ لدھیانوی کراچی)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۵ذوالحجہ ۱۴۴۱؁ھ م۲۷ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز پیر

تائید کنندہ
مفتی مرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی شہاب الدین القاسمی عفی عنہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے