کیا اندھا یا کانا جانور کی قربانی جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 121

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب سلمہ کیا کانے یا اندھے جانور کی قربانی درست ہے، اسی طرح جو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور ایک سے تھوڑا تھوڑا دیکھتا اس کا کیا حکم ہے تفصیلا مدلل جواب کی امید ہے۔(مفتی محمد انظر غفرلہ درنگ منگل دائی آسام الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وبہ التوفیق
حامداً ومصلیا اما بعد:
فقہاء علیہ الرحمہ کی تشریحات یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اندھا، کانا اسی طرح جس جانور کی کسی بھی ایک آنکھ کی روشنی نصف یا اس سے زیادہ چلی گئی ہے اسکی قربانی درست نہیں ہے ہاں جس جانور کی ایک یا دونوں آنکھ کی روشنی نصف سے کم چلی گئی ہے اسکی قربانی درست ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں اندھا و کانا جانور کی قربانی درست نہیں ہوگا اور جو جانور ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور ایک سے کم دیکھتا ہے وہ اگر نصف سے کم دیکھتا ہے تو اسکی قربانی درست نہیں ہے اور اگر نصف سے زیادہ دیکھتا ہے تو اسکی قربانی درست ہے۔ اب بینائی کی مقدار معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دو دن اس جانور کو گھاس وغیرہ ڈالنے کے وقت اس کی خراب آنکھ باندھ لیں کچھ فاصلہ سے جہاں پہلے سے گھاس نظر نہ آۓ گھاس جانور کو قریب کرتے جائیں جس جگہ سے گھاس اسے نظر آنے لگے وہاں نشان لگا دیں ۔ پھر اس کی وہ ٹھیک آنکھ باندھ لیں اور اسے اسی طرح گھاس قریب کر تے جائیں اور جہاں سے اسے گھاس نظر آنے لگے وہاں دوسرا نشان لگا دیں ۔ اگر نشان سے دوسرے نشان کا فاصلہ کم ہے دوسرے نشان سے جانور کی جگہ تک کے فاصلے سے تو اس کی دید نصف سے زیادہ ہے ۔ اس جانور کی قربانی جائز ہوگی اور اگر پہلے نشان سے دوسرے نشان تک کا فاصلہ دوسرے نشان سے جانور کی جگہ تک کے فاصلہ سے زیادہ یا اس کے برابر ہے تو اس کی بینائی اکثر نہیں ہے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
(ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا….. (قوله ومقطوع أكثر الأذن إلخ) في البدائع: لو ذهب بعض الأذن أو الألية أو الذنب أو العين. ذكر في الجامع الصغير إن كان كثيرا يمنع، وإن يسيرا لا يمنع……………………………… (قوله وإنما يعرف إلخ) قال في الهداية: ومعرفة المقدار في غير العين متيسرة. وفي العين قالوا: تشد المعيبة بعد أن لا تعتلف الشاة يوما أو يومين ثم يقرب العلف إليها قليلا قليلا فإذا رأته من موضع أعلم عليه ثم تشد الصحيحة وقرب إليها العلف كذلك فإذا رأته من مكان أعلم عليه ثم ينظر إلى تفاوت ما بينهما، فإن كان ثلثا فالذاهب هو الثلث وإن نصفا فالنصف اهـ(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤٦٨/٩كتاب الاضحية ،دارالكتب العلمية بيروت)(مستفاد:فتاویٰ مفتی محمود ۵۹۷/۹تا۵۹۸،ذبح قربانی اور عقیقہ کا بیان،جمعیۃ پبلیکیشنز لاہور پاکستان)(المسائل المہمہ ۱۸۲/۵،کتاب الاضحیۃ والعقیقۃ)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند ۵،ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ م ۵،جولائی ۲۰۲۲ء بروز منگل

تائید کنندگان
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی اویس احمد القاسمی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے