تہجد کی نماز جماعت سے پڑھنا کیسا ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
رمضان میں تہجد کی نماز باجماعت پڑھنےکاحکم

سوال:
چہ فرمائید علمائے دین ومفتیان شرع متین دربارئہ ایں مسئلہ کہ گزاردن نماز تہجد باجماعت دررمضان المبارک شرعاً جائز است یانہ ؟ بعضے دریں ادائے کردن تہجدباجماعت مکروہ دانندوبعضے جائز گویند،وبعضے بلاتداعی آںرادررمضان مبارک حرج نمی دانند،ایں قول مفتی بہ عند الاحناف درفقہ نمی آید، و شمارا مؤدبانہ التماس کردہ شودتاایں مسئلہ یعنی گزادن نمازتہجد باجماعت دررمضان مبارک قدرے تفصیل بیان کردہ شود،وقول مفتی بہ عند الاحناف ذکر کردہ آید،تاعمل برائے عوام الناس در تشویش افتادہ اند سہل آید ، بینوا بسند الکتاب وتوجروا فی اللہ الملک الوہاب ،فقط۔(۱)
الجواب حامداًومصلیاً
بعض اکابر رمضان المبارک میں’’ نماز تہجد‘‘جماعت سے اداکرتے تھے؛ بغیرتداعی کے اس کی اجازت ہے، تاہم افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ تہجد کی نماز تنہا پڑھی جائے،بلا تداعی کبھی کبھار دوتین شخص کسی کی اقتداءمیں تہجد ادا کرلیں، تو جائز ہے ۔
البتہ تین سے زائد نے غیر رمضان میں اقتداء کی ہو، تو مکروہ ہے،تاہم اقتداء صحیح ہوجائے گی ۔
در حقیقت اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ با جماعت تہجد کی نمازادا کرنا کیسا ہے؟واضح رہے کہ یہ اختلاف جواز و عدم جواز کا نہیں ہے؛ بل کہ کراہت و عدم کراہت کا ہے۔
تداعی کے بغیر ہو، تو رمضان و غیر رمضان: ہر دو میں اس کا با جماعت ادا کرنا بلا کراہت جائز ہے۔ تداعی کے ساتھ غیر رمضان میںمکروہ ہے۔البتہ رمضان المبارک میں کیا حکم ہے؟ فقہ حنفی کی بیشتر روایت تو یہی ہے کہ رمضان میں بھی تداعی کے ساتھ مکروہ ہے؛ بعض فقہاء کی صراحت کے مطابق مکروہ تنزیہی ہے، بعض کی صراحت کے مطابق مکروہ تحریمی۔(۱)
خود بعض اکابر کا یہی معمول رہا ہے کہ تہجد میں جماعت کے ساتھ قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ 
بعض نے تداعی کا مطلب’’ اذان واقامت‘‘بیان کیاہے ،لہٰذا نفل نمازجماعت سے اداکرنے کے لیے اذان واقامت کہنا مکروہ ہوگا اوراس پر مواظبت مکروہ تحریمی ؛بل کہ بدعت کی حدمیںداخل ہوکر حرام ہوگا۔
جوحضرات تہجد کی نمازرمضان المبارک میں جماعت سے اداکرتے ہیں، وہ فرمان رسول ﷺ: من قام رمضان إیماناً واحتساباً.الحدیث (بخاری ، مسلم )[۲] سے استدلال کرتے ہیں کہ اس روایت میں تراویح کی کوئی قید نہیں ہے؛ لہٰذا تراویح وغیر تراویح ہر دوکا جماعت سے ادا کرنا جائز ہوگا۔
اسی طرح سے فقہاء نے لکھاہے کہ نفل مطلقاً جماعت سے تداعی کے بغیر جائز ہے:وفي عمدۃ  الفقہاء وتحفۃ الفقہاء:والتفسیر فیہ أن التطوع بالجماعۃ إذالم یکن علی وجہ التداعي، وہو بالأذان والإقامۃ علی سبیل الجہر-کماہو المعتاد في المساجد- لایکرہ… (الخزانۃ: ۱؍۲۰۴)[۳]
الغرض رمضان المبارک میںباجماعت تہجد پڑھنا مختلف فیہ ہے؛ اس لیے جو حضرات کسی حافظ ، قاری وعالم کے پیچھے تہجداداکرتے ہیں، ان پر شدت سے نکیر نہ کی جائے؛ اس لیے کہ اگر شدت سے روکاگیا، تو منفرداً تہجد کو چھوڑدیں گے،یہ ایسا ہی ہے ،جیسے کہ وقت مکروہ میں نماز ادا کرنا، کہ باتفاق علماء احناف مکروہ تحریمی ہے، اس کے باوجود اگرعوام کو اس وقت نماز پڑھنے سے نہیں روکا جائے گا، جیساکہ علامہ حصکفی ؒ نے صراحت کی ہےکہ: وقت مکروہ میںجو نمازاداکرے ،اس کو نہ روکاجائے، اگر اس وقت نماز سے روک دیاگیا، تو احتمال ہے کہ نماز قضاکردے گا یانماز کو ترک کردے گا۔(۴)
الغرض تہجدجماعت سے اداکرنے پر رمضان المبارک میں سختی سے نکیر نہ کی جائے۔(فتاوی فلاحیہ۶۰۹/۲)
فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
———————————————————————-
(۱)ترجمہ:کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ:رمضان المبارک میں تہجد کی نماز باجماعت پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ بعض حضرات با جماعت تہجد کی نماز ادا کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، جب کہ بعض حضرات اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔بعض بغیر تداعی کے رمضان میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، اور یہی قول فقہ حنفی میں مفتیٰ بہ ہے۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلے کو واضح فرمائیں اور مفتی بہ قول کی بھی نشان دہی کردیں، تاکہ عوام کے لیےاس اختلافی مسئلے میں عمل کرنا آسان ہوجائے۔ بینوا توجروا۔ 
[۱](ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر، ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع نهر.[الدر المختار]ــــــــــــــــ قال ابن عابدین:(قوله أي يكره ذلك) أشار إلى ما قالوا من أن المراد من قول القدوري في مختصره لا يجوز الكراهة لا عدم أصل الجواز، لكن في الخلاصة عن القدوري أنه لا يكره، وأيده في الحلية بما أخرجه الطحاوي عن المسور بن مخرمة، قال: دفنا أبا بكر – رضي اللہ تعالى عنه – ليلا، فقال عمر – رضي اللہ عنه -: إني لم أوتر، فقام وصفنا وراءه فصلى بنا ثلاث ركعات لم يسلم إلا في آخرهن. ثم قال: ويمكن أن يقال: الظاهر أن الجماعة فيه غير مستحبة، ثم إن كان ذلك أحيانا كما فعل عمر كان مباحا غير مكروه، وإن كان على سبيل المواظبة كان بدعة مكروهة ؛لأنه خلاف المتوارث، وعليه يحمل ما ذكره القدوري في مختصره، وما ذكره في غير مختصره يحمل على الأول، واللہ أعلم اهـ. ـــــ قلت: ويؤيده أيضا ما في البدائع من قوله: إن الجماعة في التطوع ليست بسنة إلا في قيام رمضان اهـ فإن نفي السنية لا يستلزم الكراهة، نعم إن كان مع المواظبة كان بدعة فيكره. وفي حاشية البحر للخير الرملي: علل الكراهة في الضياء والنهاية بأن الوتر نفل من وجه حتى وجبت القراءة في جميعها، وتؤدى بغير أذان وإقامة، والنفل بالجماعة غير مستحب ؛لأنه لم تفعله الصحابة في غير رمضان اهـ وهو كالصريح في أنها كراهة تنزيه تأمل. اهـ. ـــــــــ (قوله على سبيل التداعي) هو أن يدعو بعضهم بعضا كما في المغرب، وفسره الواني بالكثرة وهو لازم معناه.ــــــــ (قوله أربعة بواحد) أما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره، وثلاثة بواحد فيه خلاف بحر عن الكافي.(رد المحتار علی الدر المختار:۲؍۴۸- ۴۹،کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في كراهة الاقتداء في النفل على سبيل التداعي وفي صلاة الرغائب،ط: دار الفکر- بیروت)
[۲]عن أبي هريرة أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: من قام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه. (صحیح البخاري:۱؍۱۰، رقم الحدیث:۳۷ و ۳۸،کتاب الإیمان، باب: تطوع قيام رمضان من الإيمان،ط: البدر- دیوبند ٭ الصحیح لمسلم:۱؍۲۵۹، رقم الحدیث: ۱۷۳- (۵۵۹)،كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان، وهو التراويح)
[۳]لم أجد ھذا الکتاب.
(۴)(وكره) تحريما، وكل ما لا يجوز مكروه (صلاة) مطلقا (ولو) قضاء أو واجبة أو نفلا أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية(مع شروق) إلا العوام، فلا يمنعون من فعلها؛ لأنهم يتركونها، والأداء الجائز عند البعض أولى من الترك كما في القنية وغيرها.(الد المختارمع رد المحتار:۱؍۳۷۰- ۳۷۱، کتاب الصلاۃ،ط: دار الفکر)
قیام اللیل{ تہجد } جماعت کے ساتھ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
قیام اللیل{ تہجد } جماعت کے ساتھ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ 
              ایک دوسرا مسئلہ اور پوچھا گیا، کہ قیام اللیل جماعت سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ میں نے کہا کہ اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے، کہنے لگے کہ فاؤنڈیشن{ ٹورنٹو کی ایک بڑی مسجد } میں تو ہوتا ہے، میں نے کہا کہ فاؤنڈیشن کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یہ تو حرمین شریفین میں بھی ہوتا ہے، دلیل: قرآن و حدیث اور فقہ ہے، قرآن و حدیث تو چاروں ائمہ کا مشترک سرمایہ ہے، اور فقہ چاروں اماموں کی الگ الگ ہے، ہمارے نزدیک قرآن و حدیث اور فقہِ حنفی حجت اور دلیل ہیں، فاؤنڈیشن اور حرمین شریفین کوئی دلیل نہیں ہے۔ 
حضور ﷺ نے رمضان میں دو یا تین راتیں جماعت سے تراویح پڑھائی تھی: 
            پھر میں نے انہیں سمجھایا کہ نبی پاک ﷺ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں سونے سے پہلے اضافی نفلیں پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے، رات میں اٹھ کر تہجد کی نماز تو بارہ مہینے پڑھنی ہے، رمضان میں بھی پڑھنی ہے، لیکن رمضان المبارک میں ایک اضافی نماز ہے، جس کا نام: قیامِ رمضان ہے، حضور اکرم ﷺ  اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، اس کےلئے کوئی جماعت نہیں کرتے تھے، فرمایا: وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِِيْمَاناً وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِِهِ، جس نے رمضان المبارک کی راتوں میں سونے سے پہلے نفلیں پڑھیں، ان نفلوں پر جو ثواب کا وعدہ ہے، اس کا یقین کرتے ہوئے، اور اس ثواب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے، اس طرح حضور اکرم ﷺ ترغیب دیا کرتے تھے، اور صحابہؓ خوب نفلیں پڑھتے تھے، جب تک اللہ سبحانہ وتعاليٰ ان کو توفیق دیتے تھے، اور یہ سب مسجد نبوی میں پڑھتے تھے، ایک رات نبی پاک ﷺ اپنے چٹائیوں والے اعتکاف کے مخصوص کمرے سے باہر نکلے، کیونکہ یہ واقعہ رمضان المبارک کے آخری دنوں کا ہے، اور حضور اکرم ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور اعتکاف کا کمرہ صرف حضور اکرم ﷺ کےلئے بنایا جاتا تھا، کسی اور صحابی کےلئے نہیں بنایا جاتا تھا، سہارنپور میں جب ہم اعتکاف کرتے تھے، تو مسجد میں پانچ سو اعتکاف کرنے والے ہوتے تھے، اور مسجد میں صرف حضرت شیخ قدس سرہ کےلئے چار پانچ آدمیوں کی جگہ کے بقدر کمرہ بنتا تھا، کیونکہ حضرت کے پاس صبح سے شام تک مریدین آیا کرتے تھے، اپنے حالات سنایا کرتے تھے، اور مشورے لیتے تھے، تو حضرت کےلئے ہی حجرہ بنتا تھا، باقی کسی کےلئے نہیں بنتا تھا۔
              الغرض حضور اکرم ﷺ اپنے کمرے سے باہر نکلے، اور مسجد میں جو صحابہ نماز پڑھ رہے تھے، ان سے کہا: آؤ! میں تمہیں نماز پڑھاؤں، حضور اکرم ﷺ نے کافی دیر نماز پڑھائی، نماز کے بعد آپ ﷺ کمرے میں چلے گئے، صبح میں اس نماز کا چرچا ہوا، تو اس امید پر کہ شاید اگلی رات بھی حضور اکرم ﷺ نماز پڑھائیں، کافی تعداد، ان لوگوں کی مسجد میں رک گئی، جو گھر میں نفلیں پڑھتے تھے، چنانچہ پچھلے دن جتنا وقت گذرا تھا، اتنا وقت گذرنے کے بعد حضور اکرم ﷺ پھر تشریف لائے، آپ ﷺ نے نماز پڑھائی، اور آج کل سے بھی زیادہ وقت لیا، جب دو دن پڑھائی، تو اب لوگوں کو ظنِ غالب ہوگیا کہ اب آپ ﷺ ہر رات یہ نماز پڑھائیں گے، چنانچہ اگلی رات مجمع اور بڑھ گیا، تیسری رات میں بھی آپ ﷺ معینہ وقت پر نکلے، آپ ﷺ نے نماز پڑھائی، اور پہلے دو دنوں سے بھی زیادہ آج وقت لیا، جب تیسری رات بھی آپ ﷺ نے نماز پڑھائی، تو لوگوں کو یقین ہوگیا، کہ آپ ﷺ ہر رات یہ نماز پڑھائیں گے؛ کیونکہ راتیں دو یا تین رہ گئی تھیں، پس چوتھی رات کو اتنے لوگ اکھٹا ہوگئے کہ مسجد میں تِل دھرنے کی جگہ نہ رہی، مقررہ وقت ہوا؛ مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے، لوگوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید آپ ﷺ کی آنکھ لگ گئی ہو، زور سے تکبیر اور تسبیح پڑھی، کسی نے چٹائی پر کنکری ماری؛  تاکہ آپ ﷺ کی آنکھ کھل جائے، مگر حضور اکرم ﷺ سوئے نہیں تھے، بہرحال آج حضور اکرم ﷺ نہیں نکلے، لوگ مایوس ہوکر منتشر ہوگئے، فجر کی نماز کے بعد حضور اکرم ﷺ نے تقریر کی، کہ رات کا تمہارا عمل مجھ سے مخفی نہیں تھا، مگر میں نے تمہارا جو اشتیاق دیکھا، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر لازم نہ ہوجائے، اس لئے آئندہ میں یہ نماز نہیں پڑھاؤنگا، اپنے اپنے طور پر جیسے پہلے پڑھتے تھے، پڑھتے رہو۔
            اکثر احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود آتے ہیں، مگر بعض احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت آتے ہیں، جب امت خواہش کرے، اور نبی صادر کرے، یا نبی خواہش کرے، اور امت صادر کرے تو وہ حکم لازم ہوجاتا ہے، اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک پیچھے ہٹ جائے، تو پھر وہ حکم لازم نہیں ہوتا، یہ نماز اسی قبیل کی تھی، کہ امت خواہش کررہی ہے، مگر نبی ﷺ پیچھے ہٹ گئے۔ 
              اور جو میں نے حدیث بیان کی، اس میں روایتیں مختلف ہیں، بعض روایتوں میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دو راتیں نماز پڑھائی، اور تیسری رات تشریف نہیں لائے، اور کچھ روایتوں میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے تین راتیں نماز پڑھائی، اور چوتھی رات تشریف نہیں لائے۔
          یہ حدیث جو میں نے آپ حضرات کے سامنے بیان کی، اس میں غور کیجئے، کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ جو دو یا تین راتیں نماز پڑھائی تھی، وہ کونسی نماز تھی؟ تراویح یا تہجد؟ غیر مقلدین کہتے ہیں: یہ حضور نے تہجد پڑھائی تھی، اور چاروں ائمہ کے متبعین کہتے ہیں: یہ حضور اکرم ﷺ نے تراویح پڑھائی تھی، اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ ماہِ رمضان المبارک میں تنہا بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے، [ عن ابن عباس، قال: کان النبی ﷺ یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعة عشرین رکعة، و الوتر تفرد بہ أبو شیبة اِبراھیم بن عثمان العبسی الکوفی، و ھو ضعیف، سنن بیھقی کبریٰ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٩٦ ‌] پس ظاہر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان دو یا تین راتوں میں یہی بیس رکعتیں پڑھائی ہونگی، غیر مقلدین کہتے ہیں: یہ روایت ضعیف ہے، اس میں فلاں راوی ضعیف ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ضعیف ہے تو کیا آسمان ٹوٹ پڑا؟ اس کے مقابل کوئی صحیح روایت ہو تو لاؤ، وہ کہتے ہیں: حضرت عائشہ کی بخاری اور مسلم والی روایت ہے، ہم کہتے ہیں: وہ تہجد کے بارے میں ہے، تراویح کے بارے میں بتاؤ، کہ اس کے علاوہ کوئی روایت ہے؟ کوئی نہیں ہے۔ 
            اور مسئلہ یہ ہے کہ صحیح اور ضعیف میں ٹکراؤ ہو تو ضعیف نہیں لیں گے؛ لیکن اگر کسی مسئلہ میں صحیح روایت نہ ہو، ضعیف حدیث ہی ہو، تو وہ ضعیف حدیث لی جائے گی، چنانچہ یہاں بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت لی جائے گی، پھر جب اس ضعیف حدیث کے مطابق ساری دنیا کے مسلمانوں کا تعامل شروع ہوگیا، تو اس کا ضعف ختم ہوگیا، اب مسئلہ کا سارا مدار تعامل پر ہوجائیگا۔
            بہرحال یہ اختلاف ہوگیا، چاروں ائمہ کے ماننے والے حضور اکرم ﷺ کی پڑھائی ہوئی نماز کو قیامِ رمضان ‌{ تراویح } سمجھتے ہیں، اور غیر مقلدین اس کو قیام اللیل{ تہجد ‌} سمجھتے ہیں، تو فاؤنڈیشن والوں، یا حرمین والوں کا خیال اگر یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ نماز قیام اللیل پڑھائی تھی، تو تم قیام اللیل جماعت سے پڑھو، تراویح جماعت سے کیوں پڑھتے ہو، جب تمہارے خیال میں حضور ﷺ نے تراویح پڑھائی ہی نہیں، تو اس کو کیوں پڑھتے ہو؟ 
          اور چاروں ائمہ کے ماننے والوں کا خیال یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ تراویح کی نماز پڑھائی تھی، اس لئے وہ پورا مہینہ یہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں، اور حضور اکرم ﷺ نے پورا مہینہ اس لئے نہیں پڑھائی تھی کہ فرضیت کا اندیشہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملت کی تنظیم کی، اور اس کا باقاعدہ نظام بنایا، اور خلفائے راشدین کے وہ طریقے جو ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو لینا ضروری ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے، اس لئے ہم پورے مہینے تراویح جماعت سے پڑھتے ہیں،  قیام اللیل جماعت سے نہیں پڑھتے، کیونکہ ہمارے خیال میں حضور اکرم ﷺ نے یہ نماز نہیں پڑھائی، پس ہم جو سمجھتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں، اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں، اس پر وہ خود عمل نہیں کرتے، بہرحال قیام اللیل خواہ رمضان المبارک میں ہو، یا غیر رمضان المبارک میں، حضور اکرم ﷺ کا جماعت سے پڑھنا ثابت نہیں، اس لئے ہماری فقہ میں یہ مسئلہ ہے کہ رمضان المبارک میں قیام اللیل جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے۔
              یہاں اگر کوئی سوال کرے کہ حضرت مدنی قدس سرہ تہجد کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے، اور ان کے پیچھے بڑا مجمع ہوتا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم حنفی ہیں، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی فقہ مدون ہے، اس پر عمل کرنے والے ہم حنفی ہیں، اور احناف میں اکابر کے کچھ تفردات ہوتے ہیں، کچھ الگ رائیں ہوتی ہیں، یہ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تفرد تھا [ حضرت مدنی قدس سرہ کی رائے تھی کہ رمضان میں نوافل جماعت کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں، تداعی کے ساتھ بھی، اور بغیر تداعی کے بھی، حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ ایک تحریر میں لکھتے ہیں: ‌‌”اس لئے تمام وہ نوافل جو رمضان کی راتوں میں پڑھی جائیں، مراد ہونگی، خواہ تراویح میں، خواہ تہجد میں، اوائلِ شب میں ہوں، یا اواخر میں، سب میں جماعت کی اجازت ہوگی ‌‌” پھر آگے تحریر فرماتے ہیں: ‌‌”پس رمضان کے جملہ نوافل کی جماعت خواہ بالتداعی ہو، یا بلاتداعی، سب کی سب ماذون فیہ، بلکہ مستحب ہوگی ‌‌” فتاویٰ شیخ الاسلام صفحہ نمبر ٤٤ و ٤٥، مرتبہ: مولانا مفتی سلمان منصورپوری صاحب ] اس کو حضرت کے ساتھ خاص رکھیں گے، اور ہم اتباع کریں گے فقہِ حنفی کا، جیسے علامہ ابن ہمام بہت بڑے حنفی عالم ہیں، ان کی چودہ مسئلوں میں امام ابوحنیفہ ؒ سے الگ رائے ہے، اور ان کے شاگرد قاسم بن قطلوبغاؒ نے لکھا ہے کہ استاد کے تفردات مفتیٰ بہ نہیں، تو ہر بڑے عالم کی کچھ مسائل میں الگ رائے ہوتی ہے، اس کی ہم اتباع نہیں کریں گے، اتباع ہم فقہِ حنفی کی کریں گے۔
                  جاننا چاھئے کہ فقہی اصطلاحات کے معانی، کتبِ فقہ سے لینے چاہئیں، لغت سے اس کے معنیٰ نہیں لینے چاہئیں، جیسے دارالاسلام اور دارالحرب فقہ کی دو اصطلاحیں ہیں، دارالاسلام کے لغت میں معنیٰ ہیں: وہ ملک جہاں تمام اسلامی قوانین جاری ہوں، ایسا ملک تو دنیا میں سعودیہ کے علاوہ کوئی نہیں، اور دارالحرب کے لغت میں معنیٰ ہیں: لڑائی کا ملک، یعنی جہاں مسلمانوں کے ساتھ جنگ چل رہی ہے، تو انڈیا اور کناڈا میں مسلمانوں کے ساتھ کہاں جنگ چل رہی ہے؟ پس انڈیا اور کناڈا جیسے ملک دارالحرب کیسے ہوں گے؟ چنانچہ لوگ اشکال کرتے ہیں کہ انڈیا اور کناڈا جیسے ملک دارالحرب کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہاں کونسی مسلمانوں کے ساتھ جنگ چل رہی ہے، یہاں تو مذہبی اعتبار سے مکمل آزادی ہے، لوگوں نے یہ اشکال ان کے معنیٰ لغت میں دیکھ کر کھڑا کیا ہے، یہ تو فقہ کی اصطلاحیں ہیں، لٰہذا فقہ کی کتابوں میں ان کے معنیٰ دیکھ کر مفہوم طے کیا جائے، اورفقہ میں دارالحرب اس ملک کو کہا جاتا ہے، جہاں اقتدارِ اعلیٰ کافروں کے ہاتھ میں ہو، اور جہاں اقتدارِ اعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، وہ دارالاسلام ہے، چاہے وہاں اسلامی قوانین جاری ہوں، یا نہ ہو، ایسے ہی تداعی کے معنیٰ لغت میں دیکھ کر طے نہیں کئے جائیں گے، یہ فقہ کا اصطلاحی لفظ ہے، چنانچہ اس کے معنیٰ بھی فقہ کی کتابوں میں دیکھ کر طے کئے جائیں گے، اور فقہ میں تداعی کے معنیٰ ہیں: کوئی بھی نفل نماز اگر اس میں ایک امام اور تین مقتدی ہوں، تو تداعی ہے، چاہے بلایا گیا ہو، یا نہ بلایا گیا ہو۔
            اسی لئے فتاویٰ شیخ الاسلام میں حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے نواسے ‌‌”‌‌مفتی محمد سلمان منصورپوری ” نے اس مسئلہ پر حاشیہ لکھا ہے، کہ فقہِ حنفی کی رو سے تداعی کے یہ معنیٰ ہیں، اور حضرت رحمہ اللہ  نے جو کچھ لکھا ہے، یہ حضرت کا تفرد ہے [ مفتی سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتھم کا حاشیہ یہ ہے ‌‌”‌‌یہ مسئلہ حضرت ؒ کے تفردات میں سے ہے، جسے حضرت ؒ نے مجتہدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے براہِ راست احادیث شریفہ سے مستنبط فرمایا ہے، لیکن احقر کو حضرت ؒ کے اس موقف کی تائید فقہِ حنفی کے کسی جزئیہ سے نہیں ملی، بلکہ مبسوط سرخسی اور دیگر کتبِ احناف میں تین چار سے زیادہ مقتدی ہونے کی صورت میں نوافل کی جماعت کو مطلقاً مکروہ قرار دیا ہے، مبسوط سرخسی جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ١٤٤، بریں بنا مسئلۂ زیرِ بحث میں فقہِ حنفی کی رو سے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف ہی راجح اور مضبوط ہے ‌‌”‌‌ محمد سلمان۔ نوٹ: حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتاویٰ رشیدیہ میں جماعتِ تہجد کو مکروہ لکھا ہے ] لٰہذا ہم حنفی ہونے کی حیثیت سے اس کی اتباع نہیں کریں گے۔
          بہرحال یہ جو سوال تھا کہ قیام اللیل جماعت سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک امام اور دو مقتدی ہوں، تو کوئی کراہیت نہیں، لیکن اگر ایک امام اور تین مقتدی ہوں، تو پھر مکروہ ہے، چاہے بلایا گیا ہو، یا بلایا نہ گیا ہو، اور جو لوگ پڑھتے ہیں انکو پڑھنے دو، دنیا میں اعمال میں اتحاد کہاں ہے؟ ہماری اسی مسجد میں آدھے آمین بالجہر کہتے ہیں، اور آدھے بالسر، آدھے رفعِ یدین کرتے ہیں، اور آدھے نہیں کرتے، نہ یہ اُن سے لڑتے ہیں، اور نہ وہ اِن سے لڑتے ہیں، کوئی کھڑا ہوتا ہے تو پیروں کے درمیان چار، چھ انگلیوں کا فاصلہ رکھتا ہے، اور کوئی کھڑا ہوتا ہے تو پیروں کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رکھتا ہے، تو اعمال میں اتحاد کہاں ہے؟ اتحاد ایمان و عقائد میں ہونا چاھئے، پس اگر فلاں اور فلاں جگہ کے لوگ قیام اللیل جماعت سے پڑھتے ہیں، تو پڑھنے دو، آپ اپنے طریقہ پر چلیں، اور وہ اپنے طریقے پر، ایک منہاج پر چلو، یہ نہیں کہ کبھی اِدھر، اور کبھی اُدھر، یوں دین کی خیر نہیں رہے گی۔ 
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
              تقریر کے بعد ایک سوال: دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید اور مسجد چھتہ میں تو تہجد کی جماعت ہوتی ہے، جبکہ دارالعلوم دیوبند مسلکِ حنفی کا ترجمان ہے؟ 

                جواب: یہ صاحبزادگان کا عمل ہے، دارالعلوم دیوبند کا عمل نہیں ہے، رمضان المبارک میں حضرت مدنی قدس سرہ کے صاحبزادگان ان دو مسجدوں میں اپنے مریدین کے ساتھ اعتکاف کرتے ہیں، اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض خلفاء کی طرح یہ حضرات بھی جماعت کے ساتھ تہجد پڑھتے ہیں، پس یہ انکا اپنا عمل ہے، دارالعلوم دیوبند سے اس کا کوئی تعلق نہیں، چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی مسجد قدیم میں یہ عمل نہیں ہوتا۔
مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن پوری 
باقی تفصیلی جواب دیکھئے: فتاوی محمودیہ ۲۰۰/۲۲)
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے