ذکر کی مجلسوں اور حلقوں کیلئے تداعی

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں مجالس اور حلقے قائم ہوتے تھے کیا ان کے لئے لوگوں کو بلایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ان مجالس کے انعقاد کے لئے تداعی ہوتی تھی یا وہ مجالس اور حلقے بلا تداعی کے خود بخود قائم ہو جاتے تھے ؟

حقیقت یہ ہے کہ خیر القرون میں تداعی کے ساتھ مجلس ذکر قائم کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دلچسپیاں آخرت سے متعلق تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ سے ذکر اور مجلس ذکر کی فضیلتیں اور مخصوص اوقات کی فضیلتیں سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ ان کو مخصوص اوقات میں جمع ہونے کی دعوت دی جائے یا اس کا اعلان کیا جائے۔ علامہ ابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ علیہ المدخل میں ذکر کرتے ہیں ۔
الا تری الی ما ورد عنھم فی اورادھم بعد الصبح والعصر فانھم کانوا فی مساجد ہم فی ہذین الوقتین کانھم منتظرون صلاۃ الجمعۃ و یسمع لھم فی المساجد دوی کدوی النحل۔(المدخل، ص: 75 ج: 1)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے فجر اور عصر کے بعد ان کے اوراد و وظائف کے بارے میں وارد ہوا ہے۔ ان دو وقتوں میں وہ اپنی مسجدوں میں ایسے وقت گزارتے تھے گویا کہ وہ جمعہ کی نماز کے منتظر ہوں ۔ اور مسجدوں میں ان کے ذکر کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی۔
اپنے اس دور میں بھی ہمیں بہت سی مساجد میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جو فجر کی نماز سے لے کر اشراق تک مسجد میں رہ کر ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہیں تو خیر القرون کے لوگوں کی دلچسپیوں کے مسجد کے ساتھ وابستہ ہونے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو تعلیم کی مجلس میں شرکت کی دعوت دینا تو ملتا ہے ذکر کی مجلس میں شرکت کی دعوت دینا نہیں ملتا۔ حالانکہ جیسے اوپر مذکور ہوا اس وقت مسجد میں لوگ ذکر کے لئے بھی جمع ہوتے تھے۔
وہو ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ حین خرج الی الناس بسوق المدینۃ فنادی فیھم ما بالکم میراث رسول اللہ ﷺ یقسم فی المسجد بین امتہ وانتم مشتغلون فی الاسواق فتر کوا السوق و اتوا الی المسجد فوجدوا الناس حلقا حلقا لتعلیم القرآن و الحدیث والحلال و الحرام فقالوا و این ماذکرت یا اباھریرۃ قال ہذا میراث نبیکم وان الانبیاء لم یور ثوا دینارا ولا درھما و انما ورثوا العلم وھا ہوذا۔
(المدخل، ص: 82 ، ج: 1)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے بازار میں لوگوں کے پاس گئے اور ان میں اعلان کیا کہ اے لوگو ! تمہیں کیا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی میراث تو آپ کی امت میں مسجد میں تقسیم کی جا رہی ہے اور تم یہاں بازاروں میں مشغول ہو لوگوں نے (یہ سوچ کر کہ آپ ﷺ کی چھوڑی ہوئی کوئی چیز برکت کے طور پر ہی مل جائے گی) بازار چھوڑا اور مسجد کی طرف آئے اور لوگوں کو حلقوں میں دیکھا تعلیم قرآن کا حلقہ، تعلیم حدیث کا حلقہ، اور حلال و حرام کی تعلیم کا حلقہ، تو پوچھا اے ابوہریرہؓ آپ نے جو کہا تھا وہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہی تمہارے نبی کی میراث ہے۔ انبیاء علیہم السلام دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑتے علم کی میراث چھوڑتے ہیں اور وہ یہی ہے۔
علاوہ ازیں یہ اذکار و اوراد نفل و مندوب ہیں جس کے لئے تداعی جائز نہیں اور مولاناخلیل احمد سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں ضابطہ تحریر فرماتے ہیں ۔ ’’پس غور کرنا چاہئے کہ نفس ذکر مولود مندوب و مستحسن ہے مگر صلوۃ نفل اس سے اعلیٰ و افضل ہے کہ عمدہ عبادات اور افضل القربات ہے اور خیر موضوع ہے مگر بایں ہمہ بوجہ تداعی و اہتمام کے کہ یہ اس میں مشروع نہیں بدعت لکھتے ہیں ۔ یہاں ذکر مولود میں بھی گو مندوب ہے مگر تداعی و اہتمام اس کا کہیں سلف سے ثابت نہیں بدعت ہو وے گا۔ البتہ وعظ و دروس میں تداعی ثابت ہے کیونکہ وہ فرض ہے جیسا کہ فرائض صلوات میں تداعی ضروری ہے۔‘‘ 
(براہین قاطعہ، ص: 153)

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے