روزہ کی نیت کس طرح اور کس وقت کی جائے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

جواب نمبر:4⃣1⃣

روزہ کی نیت کس طرح اور کس وقت کی جائے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نیت نام ہے دل کے ارادے کا، اگر کسی شخص نے دل سے ارادہ کرلیا کہ کل رمضان کا روزہ رکھوں گا تو اس کی نیت درست ہوجائے گی، زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے. البتہ اگر کوئی زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہے اردو میں کہے( اے اللہ میں کل تیرا روزہ رکھوں گا) یا عربی میں (بصوم غد نویت من شهر رمضان ) تو کوئی حرج نہیں بلکہ بہتر ہے. روزہ کی نیت کے مذکورہ بالا الفاظ (بصوم غد…) کسی حدیث سے ثابت نہیں، ان کے ذریعہ زبان سے نیت کو لازم سمجھنا غلط ہے. رمضان کے روزے میں صرف اتنی نیت کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے یا اگر رات میں نیت کرے تو یہ نیت کرلے کہ کل میرا روزہ ہے تو یہی کافی ہے. نیت میں اگر یہ ارادہ نہیں کیا کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا فرض روزہ ہے تو بھی کوئی حرج نہیں، بس روزہ کی نیت کافی ہے. بغیر نیت کے روزہ درست نہیں ہوتا. اگر کوئی شخص پورے دن صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہا لیکن اس نے روزہ کی نیت نہیں کی تھی تو اس کا روزہ نہیں ہوا۔ نیت میں بہتر یہ ہے کہ صبح صادق سے پہلے پہلے کرلے ۔ اگر اِس وقت تک نیت نہیں کی، کھانے پینے سے بھی رکا رہا تو اب «نصفِ نہار شرعی» تک (دوپہر سے ایک گھنٹہ قبل تک) نیت کی جاسکتی ہے، نصفِ نہار شرعی کا مطلب یہ ہے کہ شرعاً دن کا اطلاق "صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک” کے وقت پر ہوتا ہے، اس پورے وقت کا نصف «نصفِ نہار شرعی» ہے، اگر اس وقت سے پہلے پہلے نیت کر لی تو درست ہے، ورنہ نہیں.

 إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى . . . الخ الحديث) [ البخاري، رقم الحدیث :1]

عن عائشة أم المؤمنين، قالت :  دخل علي  النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال : ” هل عندكم شيء ؟ ". فقلنا : لا. قال : ” فإني إذن صائم ”.
(مسلم، رقم الحدیث :1154)

عن سلمة بن الأكوع  رضي الله عنه،  أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث رجلا ينادي في الناس يوم عاشوراء : أن من أكل فليتم أو فليصم، ومن لم يأكل فلا يأكل.
(بخاري، رقم الحدیث :1924).

قال الكاساني: "وإن كان عينًا وهو صوم رمضان وصوم التطوع خارج رمضان والمنذور المعين يجوز [ عقد النية بعد طلوع الفجر].
بدائع الصنائع (2/85).

والسنة أي سنة المشائخ لا النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) لعدم ورود النطق بھا عنه (شامي: 3/345)

#روزہ_کی_نیت_کا_طریقہ

#سوال_7352

روزہ رکھنے کی نیت بصوم غد نویت من شہر رمضان کس حدیث سے ثابت ہے؟ کیا روزہ کی ان الفاظ سے نیت کرنا مسنون ہے؟
Sep 08,2008

#جواب_7352

#فتوی_1088=952/

(۱) روزہ کی نیت مذکورہ بالا الفاظ سے کرنا حدیث سے ثابت نہیں: والسنة أي سنة المشائخ لا النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) لعدم ورود النطق بھا عنہ
(شامي: 3/345 ط، زکریا دیوبند)
(۲) نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر کوئی شخص دل سے ارادہ کرلے کہ کل رمضان کا روزہ رکھوں گا تو بھی درست ہوجائے گا، زبان سے تلفظ کرلینا بہت ہے۔ نیز زبان سے تلفظ کرتے وقت انھیں الفاظ سے نیت کرنا ضروری نہیں، یہ الفاظ عام آدمیوں کی سہولت کے لیے کہ وہ عربی میں نیت کرلے، جنتریوں وغیرہ میں لکھ دیے جاتے ہیں ورنہ اگر کوئی شخص اردو میں کہہ لے کہ: کل میں رمضان کا روزہ رکھوں گا۔ یا عربی میں ہی اس طرح کہہ: نویت أصوم غدًا من فرض رمضان، تو بھی درست ہوجائے گا۔ والسنة أن یتلفظ بھا فیقول: نویت أصوم غدا أو ھذا الیوم إن نوی نہاراً للہ عز وجل من فرض رمضان
(شامي: 3/345 ط․ زکریا دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالعلوم دیوبند

India
Question: 41484
روزہ کی نیت میں ھم کیوں کہتے ہیں کل کا روزہ جب کہ ہم آج کا روزہ رکھ رہے ہوتے ہیں ۔ َبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، اور کیا یہ نیت کرنا درست ہے؟
Sep 09,2012
Answer: 41484
فتوی: 888-887/N=10/1433

شریعت میں دن کا آغاز صبح صادق سے ہوتا ہے، اس لیے صبح صادق سے پہلے سحری کے وقت جو روزہ کی نیت ہوگی وہ کل آئندہ ہی کے روزے کی نیت ہوگی۔ الحاصل سحری کے وقت روزہ کی نیت میں بصوم غدٍ کہنا درست ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

محمد امیرالدین حنفی دیوبندی

t.me/jamashuda

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے