غیر نبی کیلئے علیہ السلام اور غیر صحابی کیلئے رضی اللہ عنہ پڑھنا جائز ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر 19
غير نبي پر علیہ السلام کا اطلاق ہوسکتا ہے۔؟تفصیلی جواب مطلوب ہے۔

الجواب وبہ التوفیق
غیر انبیاء کے لئے  علیہ السلام کا استعمال مستقلاً جائز نہیں ہے؛ البتہ تبعاً استعمال کی گنجائش ہے یعنی اگر کسی نبی کے نام کے بعد غیر انبیاء مثلاً آل نبی یا صلحاء کا ذکر آجائے تو سب کے لئے علیہ السلام یا علیہ الصلاة والسلام کہنا جائز ہے۔اسی طرح ’’ترضی‘‘(رضی اللہ عنہ) کے لفظ کا استعمال غیر صحابی کے لئے اور ’’ترحم ‘‘(رحمہم اللہ یا رحمہ اللہ) کے لفظ کا استعمال صحابی کے لئے جائز ہے، مگر بہتر نہیں۔واضح رہے کہ بعض کتب میں علیہ السلام کو غیر نبی کیلئے مطلقاً ناجائز لکھا ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ نبی کے ساتھ اگر غیرنبی کا نام جمع ہوجائے تو اس میں علیہ السلام کا استعمال درست ہے۔ہاں صرف غیرنبی کیلئے علیہ السلام کا استعمال فقہاءنے اہل بدعت کا شعار ہونے کی وجہ سے منع کیا ہے۔جیسا کہ اہل بدعت حضرت علی علیہ السلام کہتے,یہ منع ہے۔(مستفاد: معارف القرآن، مکتبہ اشرفی ۷؍۱۰۳، سورۃ احزاب آیت:۵۶،(خیر الفتاوی ۱؍۱۴۷( فتاوی محمودیہ ڈھابیل ۱۹؍۱۳۸(فتاوی میرٹھ ۲۸؍۲۶۵)(دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند جواب نمبر:155273)( فتاویٰ قاسمیہ ۴۱۷/۳)(ارشادالمفتین  ۱۸۹/۲ ۔
عبارت ملاحظہ فرمائیں
ولایصلي علی غیر الأنبیاء،والملائکۃ، إلا بطریق التبع۔ (روح المعاني، سورۃ الاحزاب، تحت تفسیر الآیۃ:۶۵، زکریا ۱۲/۱۲۲)
ولایصلي علی غیر الأنبیاء، ولا غیر الملائکۃ إلا بطریق التبع وتحتہ في الشامیۃ: وأما السلام -أنہ في معنی الصلاۃ فلایستعمل في الغائب ولایفردبہ غیر الأنبیاء-وقال القاضي عیاض:الذي ذہب إلیہ المحققون وأمیل إلیہ ماقالہ مالک وسفیان و اختارہ غیر واحد من الفقہاء والمتکلمین أنہ یجب تخصیص النبی وسائر الأنبیاء بالصلوۃ والتسلیم۔ (شامی زکریا، کتاب الخنثی مسائل شتی ۱۰/۴۸۳، کراچی ۶/۷۵۳، ہندیۃ، زکریا قدیم ۶/۴۴۶، جدید ۶/۴۳۹)
أنہ قولہ علي علیہ السلام من شعار أہل البدعة، فلا یستحسن في مقام المرام (شرح الفقہ الأکبر: ۱۶۷، ط: قدیمی) 
وأما السلام فنقل اللقاني عن الجویني أنہ في معنی الصلاة فلا یستعمل فيالغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال علي علیہ السلام وسواء في ہذا الأحیاء والأموات․․․ والظاہر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعار أہل البدع ولأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیہم السلام․ (رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۳-۴۸۴، کتاب الخنثی فصل في مسائل شتی: ط: زکریا دیوبند)
ویستحب الترضی للصحابۃ- والترحم للتابعین، ومن بعدہم من العلماء، والعباد، وسائر الأخیار، وکذا یجوز عکسہ الترحم للصحابۃ والترضي للتابعین ومن بعدہم علی الراجح۔ ( شامی، کتاب الخنثي مسائل شتي، زکریا ۱۰/۴۸۵، کراچي ۶/۷۵۴)
ویستحب الترضي للصحابۃ؛ لأنہم کانوا یبالغون في طلب الرضا من اللہ تعالی ویجتہدون في فعل مایرضیہ ویرضون بما یلحقہم من الابتلاء من جہتہ أشد الرضا فہؤلاء أحق بالرضا وغیرہم لایلحق أدناہم ولو أنفق ملء الأرض ذہبا۔ (شامي،کتاب الخنثي، مسائل شتی زکریا ۱۰/۴۸۵، کراچي ۶/۷۵۴)
ثم الأولی أن یدعو للصحابۃ بالرضا فیقول رضي اللہ عنہ وللتابعین بالرحمۃ، فیقول: رحمہم اللہ۔ (ہندیۃ، کتاب الخنثي، قبیل کتاب الفرائض،زکریاجدید ۶/۴۳۹، قدیم ۶/۴۴۶) 
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
23شعبان المعظم 1441ھ 18اپریل2020 ء
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے