وبائی امراض (جیسےکورونا وائرس) سے بچنے کیلئے اجتماعی اذان دینا Corona Virus se bacne ke liye azaan dena

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 07

السلام علیکم 
سوال:- کئی روز سے سوشل میڈیا پر ایک میسیج گردش کر رہا ہے کہ وبائی مرض (جیسےکورونا وائرس) کو دور کرنے کے لیے سارے مسلمان تین دن تک رات دس بجے اپن اپنی چھت پر اذان دیں۔ اس عمل سے یہ وبا دور ہو جائیگی۔ مہربانی کرکے ضرور بتائے کہ اس بات کی شریعت میں کیاحقیقت ہے۔
(المستفی عبد الشامی)

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب وباللہ التوفیق:
علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: خیرالدین رملی کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے، مثلاً: نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت، آگ لگ جانے کے موقع پر
البحرالرائق میں ہے :
"( قوله : وخرج بالفرائض إلخ ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلايسن للمنذورة. ورأيت في كتب الشافعية: أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر قياساً على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول : ولا بعد فيه عندنا”(۱۰/۳)
فتاوی شامی میں ہے :
” مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة
(قوله: لايسن لغيرها ) أي في الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر للخير الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة كما في أذن المولود والمهموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة وعند مزدحم الجيش وعند الحريق قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا لكن رده ابن حجر في شرح العباب وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول ولا بعد فيه عندنا ا هـ أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه”.(۳/۱)
 خیرالدین رملی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دہشت پسندوں کے حملے کے موقع پر اذان کہنا حنفیہ کی کتابوں میں تو کہیں مذکور نہیں، البتہ شافعیہ کی کتابوں میں اس کو مستحب لکھا ہے، اس لئے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے، البتہ نومولود کے کان میں اذان کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور فقہِ حنفی میں بھی اس کی تصریح ہے، اذان اگر نماز کے لئے دی جائے، لیکن بے وقت دی جائے تب بھی اس سے نماز فرض نہیں ہوتی، بلکہ نماز کا وقت آنے پر اذان کے اعادہ کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ بے وقت کی اذان کالعدم ہے۔(نجم الفتاویٰ ۱۵۲)( فتاویٰ بینات۲۳۱/۲ مکتبہ بینات پاکستان کراچی)(آپ کے مسائل اور ان کا حل۳۰۱/۳مکتبہ لدھیانوی کراچی پاکستان)(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)(فتوی نمبر : 144010200411)
کفایت المفتی میں لکھا ہے کہ:
دفع وباء کے لئے یہ طریقہ اذانیں کہنے کا آنحضرت ﷺ یا صحابہ ؓ یا ائمہ مجتہدینؒ کا تعلیم کیا ہوا نہیں ہے اگر اس کو شرعی کام سمجھا جائے یا اس پر اصرار کیا جائے شریک نہ ہونے والے پر طعن یا ملامت کی جائے تو ناجائز و بدعت ہے .اور اگر شرعی حکم قرار نہ دیا جائے بلکہ مثل عملیات کے ایک عمل سمجھ کر کیا جائے تو مباح ہوسکتا ہے مگر اس شرط سے کہ نہ تو کسی نماز پڑھنے والے کی نماز میں خلل انداز ہو اور نہ ہر شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ ضرور شریک ہو جب دیکھیں کہ کوئی شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے اور اذانوں کی مجموعی آواز سے قرب و جوار میں بھی کسی بیمار کو تکلیف نہ ہوگی تو وہ خود یہ عمل کریں اور جو شخص اپنی مرضی سے شریک ہو اور جو نہ ہو اس کو مجبور نہ کریں طعن و ملامت نہ کریں اگر یہ شرطیں پوری نہ ہوں تو اس عمل کی اجازت نہ ہوگی.( کفایت المفتی۷۸/۹)وجلد نمبر۵۲/۳دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
کل مباح یؤدی الیٰ زعم الجھال سنیۃ أمرٍ أو وجوبہ فھو مکروہ کتعین السورۃ للصلوۃ و تعین القراء ۃ لوقت : فتاویٰ تنقیح الحامدیۃ : ۲/۳۶۷‘ طبع حاجی عبدالغفار‘ قندھار افغانستان۔)
فتاویٰ محمودیہ میں لکھا ہے کہ:
بلا کے دفعیہ کیلئے اذان کہنا ثابت بلکہ مستحب ہے لیکن بخار کے دفعیہ کیلئے اذان کہنا ثابت نہیں ہے٬شرعا دفع بلا کیلئے اذان اس طرح کہی جائے کہ اذان نماز کا اشتباہ نہ ہو۔(فتاو محمودیہ ۴۰۷/۵)و۲۹۸/۳)(دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
فتاویٰ حقانیہ میں لکھا ہے کہ:
نماز کے علاوہ بعض مواقع ایسے ہیں جن میں سلف صالحین سے اذان دینا عملاً چلا آرہا ہے۔مثلا جہاد کے دوران غم اور انتہائی پریشانی کے وقت غضب کے وقت جب مسافر راہ بھول جائے مرگی آجائے جانور یا انسان کی بدخلقی طاہر ہوجائے اسی طرح وبائی امراض کے پھلاؤ کے وقت اذان دینا منقول ہے۔اسلئے ان مواقع میں فی ذاتہ اذان دینا مباح ہے۔
نیز اسکے حاشیہ میں امداد الفتاوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
ان مواقع میں اذان دینا سنت ہے فرض نماز٬بچہ کے کان میں بوقت ولادت،آگ لگنے کے وقت،جنگ کفار کے وقت،مسافر کے پیچھے،جب شیاطین ظاہر ہوکر ڈرائے،غم کے وقت،غضب کے وقت،جب مسافر راہ بھول جائے،جب کسی کومرگی آوے،جب کسی آدمی یا جانور کا بدخلقی ظاہر ہو،اسکو صاحب ردالمحتار نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،اور بعض بزرگوں کا عمل وقت عموم امراض وخوف غرق کے بھی دیکھا ہے۔(فتاوی حقانیہ ۶۳/۳) بحوالہ امداد الفتاوی ۱۰۷/۱)
اسی طرح بعض کتب میں وبائی امراض وغیرہ کے وقت اذان دینا ممنوع بھی لکھا ہے۔جیسا کہ نظام الفتاویٰ جلد اول حصہ دوم صفحہ نمبر:۱۲۶زکریا بکڈپو)(احسن الفتاوی۳۷۶/۱ باب ردالبدعات ، ایم ایچ سعید کمپنی ، کراچی)(امداد الاحکام۴۲۰/۱مکتبہ:دارالعلوم کراچی)
امداد الفتاوی جدید مطول۵۲۳/۹تا۵۲۸) زکریا بکڈپو) وغیرہ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ کورونا وائرس کے موقع پر جو میسج شوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے فلاں فلاں وقت اجتماعی یا انفرادی طور پر اذان دی جائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔بلکہ کوئی اگر اپنی مرضی سے کسی کو خلل و سنت سمجھیں بغیر عملیات کے طور پرعمل کرے تو اسکی گنجائش ہوسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
(صدر)دندوا حافظیہ قاریانہ وخارجیہ مدرسہ،مریگاوں (آسام)۔
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے