کیا غسل خانہ میں پیشاب کرنا جائز ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 17
غسل خانہ میں پیشاب کرنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
غسل خانہ اگر کچا ہے اور اس میں پانی جمع ہوجاتا ہے تو وہاں پیشاب کرنا مکروہ تحریمی ہے،ہاں اگرغسل خانہ میں پانی نکلنے کی نالی ہے اور پیشاب کے بعد فوراً پانی بہادیاجائے اور پیشاب کااثر باقی نہ رہے تومکروہ نہیں تاہم احتیاط اولی ہے۔اور اگر غسل خانہ پختہ ہے کہ پانی بہانے سے پانی کے ساتھ پیشاب بھی نکل جاتا ہے۔تو ایسے غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔جیسا کہ آج کل اکثر پیشاب خانے پختہ ہوتا ہے۔لہذا ضرورت کے وقت پختہ غسل خانہ میں پیشاب کرنے کی گنجائش ہے۔بلا ضرورت خلاف اولی ہے۔نیزاحادیثِ طیبہ میں غسل خانے میں پیشاب کرنے کو نسیان اور وساوس کا سبب بتایا گیا ہے۔ 

عبارت ملاحظہ فرمائیں
ویکره في محل التوضوء لأنه یورث الوسوسة (مراقی الفلاح) لقوله عليه السلام لاَیَبُولَنَّ أحد کُمْ فِي مُسْتَحَمِّه ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْه أَوْ یَتَوَضَّأفَاِنَّ عَامَّة الْوَسوَاسِ مِنْهُ
قال ابن ملک لأن ذلک الموضع یصیرنجسا فیقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاس أم لا حتی لوکان بحیث لایعودمنه رشاس أو کان فيه منفذ بحیث لایثبت فيه شيء من البول لم یکره البول فيه۔(ابن ماجہ ۱؍۲۶)(طحطاویطحطاوی ص:۳۰۔طحطاوی مع المراقی،۴۲، فصل فیما یجوز به الاستنجاء۔( شامی کراچی، ۳۴۴/۱, درمختار بیروت ۱؍۴۸۴،زکریا۱؍۵۵۷-۵۵۸)فصل فی الاستنجاء.)(مجمع الأنهر,۱۰۱/۱,قبیل کتاب الصلٰوة، دارالکتب العلمية بیروت)
قال أبوداود: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل، والحسن بن علي، قالا: حدثنا عبد الرزاق، قال أحمد: حدثنا معمر، أخبرني أشعث، وقال الحسن: عن أشعث بن عبد الله ، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : ” لا يبولن أحد كم في مستحمه ثم يغتسل فيه قال أحمد: ثم يتوضأ فيه فإن عامة الوسواس منه "( سنن أبي داود ,۱,رقم،۲۷)(مستفاد:بذل المجہود ۱۹/۲)(آپ کے مسائل اور انکا حل ۳۲/۲)(جدید معاملات کے شرعی احکام۲۳۹/۳)(کتاب المسائل،۱۷۷/۱ )(فتاویٰ محمودیہ کراچی،۹۵/۵)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
16اپریل 2020ء 21شعبان المعظم,1441ھ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے