کیا بینک سے لون دلوانا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

لون دلوانا جائز ہے

مسئلہ نمبر 102

السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ
زید بینک سے کنیکٹ ہے اور بینک کو لون کے گاہک دیتا ہے
مثلا عمر کو اپنا گھر یا دوکان بنانے کے لئے لون کی ضرورت ہے لیکن بینک ہر کسی کو ایسے ہی لون نہیں دیتی اس لیے زید کے تعلقات مختلف بینکوں سے ہیں اور اسی کے مخصوص فارم کی بنیاد پر بینک عمر کو لون دیگی تو زید عمر سے طے کرتا ہے کہ میں تجھے لون دلا دونگا اس کے بدلے مجھے اتنے اتنے روپے لگے گے ۔وہ معاملہ دونوں کی رضا مندی سے طے ہوتا ہے اور اس مخصوص بل یا فارم پر بھی لکھا جاتا ہے اگر عمر زید کو طے شدہ رقم نہیں دے پاتا تو بینک اس فارم کی بنیاد پر عمر سے وہ روپے وضول کرکے زید کو دے دیتی ہے۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کا اس فعل کا حکم کیا ہے
کیا اس طرح زید کی آمدنی حلال ہوئی یا نہیں۔جواب دے کر احسان فرمائیں.فقط والسلام(مستفتی محمد سلمان اچلپور مہاراشٹر انڈیا)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب حامداً ومصلیا ومسلما
اما بعد:سودی معاملہ میں مدد کرنا اعانت علی المعصیۃ ہونے کی بنا پر ناجائز ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی معاملہ میں کسی بھی حصہ لینے والے پر لعنت فرمائی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں آپ کیلئے لون دلوانا اور اس پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔

نفائس الفقہ میں لکھا ہے کہ اسلام میں سودی لین دین ،حرام اور سخت ممنوع ہے، اس میں کسی مسلمان کو شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے اوراسلام کا یہ اصول وقاعدہ ہے کہ وہ جب کسی چیزکو حرام وممنوع ٹہراتا ہے ،تو اسی کے ساتھ ان چیزوں کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے، جن سے اس حرام کام کو افراد یا معاشرے میں در آنے کاموقع ملتاہو؛ اس کے لیے راستے ہموار ہوتے ہوں اور اس کوکسی بھی طور پر تقویت پہنچتی ہو ، اسی وجہ سے حرام اور باطل کاموں پر اعانت ومدد کو اسلام ناجائز قرار دیتاہے۔(نفائس الفقہ۱۹۱/۱،حرام کاروبار کیلئے املاک کا اجارہ،کتبۂ مسیح الامت،دیوبند و بنگلور)

عبارت ملاحظہ فرمائیں
قال اللّٰه تعالیٰ: {وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی، وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوْا اللّٰه، اِنَّ اللّٰه شَدِیْدُ الْعِقَابِ} [المائدۃ ،الآية ۲]

عن جابر رضي الله عنه قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربو ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء. وفي التكملة لان كتابة الربا اعانة عليه ومن هنا ظهر أن التوظف في البنوك الربوية لا يجوز فإن كان عمل الموظف في البنك ما يعين على الربا،كالكتابة أو الحساب فذالك حرام لوجهين الأول اعانة على المعصية والثاني أخذ الاجرة من المال الحرام فإن معظم دخل البنوك حرام مستجلب بالربا وأما إذا كان العمل لا علاقة له بالربا فإنه حرام للوجه الثاني فحسب،فاذا وجد بنك معظم دخله حلال جاز فيه التوظف النوع الثاني من الأعمال.والله أعلم(تكملة فتح الملهم٥٧٥/١،کتاب المساقاۃ،باب آكل الربا ومؤكله،داراحياء التراث العربي بيروت لبان)

ولا يجوز على المنافع المحرمة لأنه يحرم فلا يجوز أخذ العوض عليه كالميتة والدم.(المهذب ٢٤٣/٢،كتاب الإجارة،دارالكتب العلمية بيروت)(مستفاد: نفائس الفقہ۱۹۱/۱تا۲۱۹)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۵،صفر المظفر ۱۴۴۳ھ م ۲۳،ستمبر ۲۰۲۱ء بروز جمعرات

تائید کنندگان
مفتی عبد اللہ محی الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد اویس احمد القاسمی غفرلہ
مفتی امام الدین القاسمی غفرلہ
مولوی عبد الرحمن انصاری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے