کیا مسجد کے چھت کے اوپر موبائل ٹاور لگانا جائز ہے | masjid ke upar taware lagana jayej hai

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسجد کے چھت پر ٹاور لگانا

مسئلہ نمبر 101

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا مسجد کے اوپر کی منزل میں کسی چیز کا ٹاور لگانا جائز ہے۔(المستفتی:مولانا محمد زینل غفرلہ،مرکز روڈ ہوجائی آسام الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
اما بعد:مسجد شرعی نیچے سے اوپر تک مسجد ہے، چھت کا حکم بھی وہی ہے جو نچلے حصے کا ہے، اس جگہ پر مسجد کے مقاصد کے خلاف کسی قسم کا کام کرنا شرعاً ممنوع ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد کی چھت پر کسی موبائل کمپنی یا کسی اور کمپنی کا ٹاور لگانا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔ البتہ مسجد کی وہ جگہ جہاں پر دکان، مکان ،وضو خانہ،بیت الخلا،اسٹور، وغیرہ ہے وہاں پر ٹاور لگانا درست ہے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں

واذا كان السرداب والعلو لمصالح المسجد أو كان وقفا عليه صار مسجدا شرنبلالية.
قال في البحر:وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى (وأن المساجد لله) (الجن:١٨) بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لاحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس. هذا هو ظاهر الرواية.(رد المحتار ٥٤٧/٦، کتاب الوقف / مطلب في أحکام المسجد، دارالكتب العلمية بيروت)

وكره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء……. (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي(رد المحتار على الدر المختار ٤٢٨/٢ تا٤٢٩ كتاب الصلاة/باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،دارالكتب العلمية بيروت)(مستفاد:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر١٤٣٩٠٩٢٠١٧٤٠)(المسائل المہمہ ۱۳۶/۷،مسجد کے اوپر سے فلائی اووَر (Fiy Over)بنانا،مکتبہ الاسلام جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم
اکل کوا ، نندربار ،مہاراشٹر)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۲،صفر المظفر ۱۴۴۳ھ م ۲۰،ستمبر ۲۰۲۱ء بروز پیر

تائید کنندگان
مفتی شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد سہیل رشیدی غفرلہ
مولوی عبد الرحمن انصاری غفرلہ
مفتی شاہد جمال پشاوری غفرلہ
مفتی محمد زکریا اچلپوری الحسینی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے