یوگا سیکھنا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

یوگا سیکھنا جائز ہے

مسئلہ نمبر 94 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں یوگا کرنے کا کیا حکم ہے؟؟؟ کیا مسلمان یوگا کر سکتے ہیں؟؟دارالعلوم دیوبند کے فتاوی میں لکھا ہے کہ اس میں ہندوانہ مذہبی طرز کے اعمال اور شرکیہ اقوال کہے جاتے ہیں کسی مسلمان کے لیے اس کا کرنا جائز نہیں؟؟اس فتوے پر غور کیا جائے منع کی بنیاد کیا ہے،،در اصل بہت سارے لوگ میں خود کچھ ایسی ورزشیں کرتا ہوں جسے شاید یوگا کا نام دیا جا سکتا ہے، لیکن اس میں وہ کلمات استعمال نہیں ہوتے تو اس پر کیا حکم لگایا جائے گا ؟اور نمسکار جیسے ہاتھ بھی نہیں باندھتا ہو تو کیا حکم ہوگا؟؟اگر مستقل ورزش کا باب دیکھیں تو وہ کسی مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔اور ذیل میں جو رد المختار کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں:
لکن لا مطلقا بل فی المذموم وفیما قصد بہ التشبیہ بہم ۔۔۔۔۔۔۔۔(المستفتی:سید اعظم علی بھوپال،انڈیا)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداً ومصلیا اما بعد
یوگا کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنے سے پہلے یوگا کی حقیقت بیان کی جاتی ہے،یوگا کی حقیقت آکسفورڈ ڈکشنری میں یوں بیان کی گئی ہے:

Yoga:’a Hindu philosophy that teaches you
how to control your body and mind in the belief that you can become united with the spirit of the universe in this way.(OXFORD
DICTIONARY (8TH EDITION)

ترجمہ: یوگا،ہندو تعلیمات کے مطابق ایک ایسی مشق ہے جس میں انسان کو اپنے جسم اور ذہن پر کنٹرول(قابو) کرنا سکھایا جاتا ہے اور اس کے پیچھے یہ عقیدہ کار فرما ہے کہ آپ ایک آفاق روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔

آکسفورڈ ڈکشنری ہی میں یوگا کی، بیان کی گئی دوسری تعریف یہ ہے:

Yoga: ‘a system of exercises for your body and for controlling your breathing, used by people who want to become fitter or to relax.
(OXFORD DICTIONARY (8TH EDITION)

ترجمہ: یوگا ایک جسمانی ورزش کا طریقہ ہے، جس میں کوئی بھی شخص اپنے جسم اور اپنے سانس پر کنٹرول (قابو) پالیتا ہے تاکہ وہ اپنے جسم میں چستی اور ذہنی طور پر نشاط محسوس کرے۔
مذکورہ بالا یوگا کی دونوں تعریفوں کا حاصل یہ ہے کہ یوگا کے بارے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ یوگا ہندو مذہب کی عبادات اور رسومات کانام ہے،جبکہ یوگا کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یوگا کسی مذہب کی عبادات،یا رسومات نہیں ہے،بلکہ یوگا ایک جسمانی ورزش کا طریقہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے جسم اور سانس پر قابو پالینے اور اپنے اندر ذہنی اور جسمانی نشاط محسوس کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔

یوگا سے متعلق جو کتابیں ہمیں دستیاب ہوسکیں ان کے مطابق اس کی تقریبا کم وبیش ایک سو پچاسی ورزش کی ترکیبیں ہیں، مثلا(۱) یوگا سیکھنے والے کو بتایا جاتا ہے کہ وہ آہستگی سے سانس لیتے ہوئے یہ تصور کرے کہ وہ پیٹ کو پھیلا کر پہلے پھیپھڑوں کا نچلا حصہ بھر رہے ہیں۔اس کے بعد پسلی کا درمیانی حصہ اور پھر سینے کا اوپری حصہ۔ سانس نکالتے وقت اس کا الٹا یعنی اوپر سے نیچے اور آخر میں پیٹ کو ذراسا اندر کرکے پھیپھڑوں کو مکمل خالی کردیاجائے. یہ تین حصوں میں گہرا سانس لینا تمام یوگا کے سانس لینے والے طریقوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ سانس لینے کے اس طریقہ کار کو ” دیرگا سواسم ” کہتے ہیں۔(۲)ایک دوسری مشق میں جلدی جلدی کئی دفعہ سانس لیا جاتا ہے اور نکالا جاتا ہے،اس طریقے میں پیٹ کو اندر کھینچ کر سانس کو قوت کے ساتھ باہر نکالا جاتا ہے شروع میں ایک راؤنڈ پندرہ سانسوں کا ہو سکتا ہے،اس مشق کو بڑھاتے بڑھاتے ایک راؤنڈ میں کئی سو تک جایا جاتا ہے سانس لینے کے اس طریقہ کار کو "کپلا بھاتی” کہتے ہیں۔

یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے، اور اس میں متعدد شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں ، لہذا اگر واقعۃً یوگا سے متعلق جدید معلومات درست ہوں اور یوگا میں شرعی لحاظ سے خرابیاں پائی جاتی ہوں تو ان کی موجودگی میں یوگا ورزش کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔تاہم اگر کوئی شخص اپنے جسم کو تندرست رکھنے کے لئے یا کوئی مریض ہو اور ڈاکٹر حضرات اس کے علاج کے لیے یوگا تجویز کریں اور وہ درج ذیل شرعی امور کا لحاظ رکھا کر اور خرابیوں سے بچتے ہوئے یوگا ورزش کرے تو اس کی گنجائش ہے:

(۱)ماہر اطباء یوگا کے بارے میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوں کہ یوگا انسانی امراض کے علاج کے لیے یا انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں مفید ہے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏المؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير‏.‏ احرص على ما ينفعك، واستعن بالله ولا تعجز‏.‏ وإن أصابك شيء فلا تقل‏:‏ لو أني فعلت كان كذا وكذا، ولكن قل‏:‏ قدر الله، وما شاء فعل؛ فإن لو تفتح عمل الشيطان‏.(فتح المنعم شرح صحيح مسلم ١٩٥/١٠،باب الإيمان بالقدر والاذعان له،دارالشروف،بيروت)

(۲)ہندوؤں کے یوگیوں یا غیر مسلموں سے یوگا ورزشیں نہ سیکھی جائیں، کیونکہ اس میں دینی اور اخلاقی بگاڑ کا قوی اندیشہ ہے اور یہ عمل صرف ورزش کی غرض سے کیا جائے اس میں عبادت کی کوئی نیت شامل نہ ہو۔

ولعل الصحيح أن كل ما عده العرف تعظيما وحسبه المسلمون موالاة فهو منهی عنه ولو مع أهل الذمة لا سيما إذا أوقع شيئا في قلوب ضعفاء المومنين ولا ارى القيام لاهل الذمة في المجلس إلا من الأمور المحظورة لان دلالته علي التعظيم قوية وجعله من الاحسان لا أراه من الاحسان كما لا يخفى.(تفسیر روح المعاني١٢٠/٣،داراحياء التراث العربي، بيروت)

(۳)یوگا ورزشیں سیکھنے کیلیے کسی بھی غیر مذہب کی عبادت گاہوں (مثلا مندروں) کارخ نہ کیاجائے۔

وفي التتارخانية: يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة وإنما يكره من حيث إنه مجمع الشياطين لا من حيث إنه ليس له حق الدخول ا هـ قال في البحر : والظاهر أنها تحريمية: لأنها المرادة عند إطلاقهم،وقد أفتيت بتعزير مسلم لازم الكنيسة مع اليهود.(رد المحتار على الدر المختار٣٤/٢،كتاب الصلاة،مطلب تكره الصلاة في الكنيسة،دارالكتب العلمية بيروت)إعلاء السنن٤١١/١٥،كيفية الاستحلاف،ادارة القران والعلوم الإسلامية،كراتشى باكستان)

(٤)ورزش مرد اور خواتین کے مخلوط ماحول میں نہ ہو۔

عن أسامة بن زيد وسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما تركت بعدي في الناس فتنة هي أضر على الرجال من النساء.(فتح المنعم شرح صحيح مسلم ٢٨٨/١٠،باب أكثر الجنة الفقراء،واكثر أهل النار والنساء وبيان الفتنة بالنساء،دارالشروف،بيروت) الصحيح لمسلم٣٧٤/٧،كتاب الرقاق،باب أكثر الجنة الفقراء،واكثر أهل النار والنساء وبيان الفتنة بالنساء،مكتبة البشرى،كراتشى باكستان)

وفي فتح القدير ويكره الدفن في الأماكن التي تسمى فساقی وهي من وجوه: الأول عدم اللحد الثاني دفن الجماعة في قبر واحد لغير ضرورة الثالث اختلاط الرجال بالنساء من غير حاجز كما هو الواقع في كثير منها.(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،٣٤١/٢،كتاب الجنائز/فصل السلطان احق بصلاته،دارالكتب العلمية بيروت)حاشية الإصباح على نور الإيضاح ص٣٧٩،دارالكتب العلمية بيروت)

(٥)یوگا ورزش کرنے والے کے ذہن میں کوئی شرکیہ عقیدہ نہ ہو۔

(٦)یوگا ورزش کے وقت یوگیوں کے مخصوص (گیرو یعنی لال رنگ) کا لباس پہننے کو ضروری نہ سمجھا جائے۔(٧)یوگا ورزش سورج کے طلوع ہوتے وقت نہ کی جائے، کیونکہ یہ ہندوؤں کی عبادت (یوگا)کا وقت ہے، اس وقت میں یوگا ورزش کرنے سے ہندوؤں کی عبادت کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔

عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم۔۔رواه أحمد و أبو داؤد.قال القاري:أي شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره أو بالفساق أو الفجار أو باهل التصوف والصلحاء الابرار ،”فهو منهم “اي في الاثم أو الخير عند الله تعالى….(بذل المجهود في حل أبي داود،١٩٦/٨،كتاب اللباس،باب فيما يدعى لمن ليس ثوبا جديدًا،دارالكتب العلمية بيروت)(مرقاة المفتاح شرح مشكاة المصاليح،٢٢٢/٨،كتاب اللباس،الفصل الثاني،دارالكتب العلمية بيروت)

أقول:وكراهة التشبه بأهل البدع مقررة عندنا أيضا لكن لا مطلقا بل في المذموم وفيما قصد به التشبه بهم.(روح المعاني ٢٦١/٨،سورة الأحزاب الآيات ٥٥،دارالكتب العلمية بيروت)رد المحتار على الدر المختار ٤٨٤/١٠،كتاب الخنثى،دارالكتب العلمية بيروت)

(٨)ورزش کے دوران ستر ڈھکنے کا مکمل اہتمام ہو۔

عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله تعالی عنه قال: قال رسول الله صلی الله عليه و سلم احفظ عورتك إلا من زوجتك، أو ما ملكت يمينک فقلت: يا رسول الله! أرأيت إذا كان الرجل خاليا؟ قال:فالله أحق أن يستحي منه.رواه الترمذي ،وابو داؤد ،وابن ماجه.
فالله أحق أن يستحي منه وهذا يدل على وجوب الستر في الخلوة إلا عند الضرورة. (مرقاة المفاتیح،٢٦٠/٦کتاب النکاح،باب النظر إلى المخطوبة الفصل الثاني،دارالكتب العلمية بيروت)

(قوله: ووجوبه عام) أي: في الصلاة وخارجها (قوله: ولو في الخلوة) أي: إذا كان خارج الصلاة يجب الستر بحضرة الناس إجماعا، وفي الخلوة على الصحيح……….ثم إن الظاهر أن المراد بما يجب ستره في الخلوة خارج الصلاة هو مابين السترة و الركبة فقط.(ردالمحتار،٧٥/٢ کتاب الصلاة،باب شروط الصلاة،دارالكتب العلمية بيروت)

(۹)یوگا ورزش کرنے سے پہلے، یا ورزش کے دوران، یا ورزش کے اختتام پر پڑھے جانے والے اسلامی تعلیمات کے خلاف مضامین پر مبنی مخصوص کلمات(اشلوک) ادا نہ کرے۔

وفي الخلاصة:وغيرها إذا كان في المسألة وجوه توجب التفكير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم.(رد المحتار على الدر المختار ٣٥٨/٦ كتاب الجهاد/باب المرتد،دارالكتب العلمية بيروت)تكملة المجموع شرح المهذب ٧٢/٢٤،كتاب القتال أهل البغي/باب حكم المرتد،دارالكتب العلمية بيروت)

(۱۰)ورزش کے دوران کسی بھی طرح ہندوؤں کے طریقہ کی نقالی نہ ہو، مثلا! ورزش کے دوران دونوں ہاتھ جوڑ کر پر نام ونمستے کرنا، یایوگیوں کی طرح فاسد عقیدہ  رکھ کر آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا وغیرہ۔

قال القاري:أي شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره أو بالفساق أو الفجار أو باهل التصوف والصلحاء الابرار ،”فهو منهم “اي في الاثم أو الخير عند الله تعالى….(بذل المجهود في حل أبي داود،١٩٦/٨،كتاب اللباس،باب فيما يدعى لمن ليس ثوبا جديدًا،دارالكتب العلمية بيروت)(مرقاة المفتاح شرح مشكاة المصاليح،٢٢٢/٨،كتاب اللباس،الفصل الثاني،دارالكتب العلمية بيروت)

(۱۱)جو ورزش کی جائے وہ جسمانی لحاظ  سے مضر نہ ہو،مثلا ورزش کے دوران ٹکٹکی باندھ کر سورج کی  طرف دیکھنا، کیونکہ اس سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے.(۱۲)یوگا ورزش علاج کیلئے یا اپنے جسم کو تندرست رکھنے کی نیت سے کی جائے محض وقت گزاری کیلئے نہ کی جائے۔

أما ما لم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الاول:ما شاهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب على منافعه وانه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وعن الصلوات والمساجد التحقق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراما أو مكروه. والثاني:ما ليس كذلك فهو أيضا ان اشتغل به بنية تلهي والتلاعب فهو مكروه و ان اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح بل قد يرقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه……….
وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها ما لم تشمل على معصية أخرى وما لم يؤد الإنهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه ودنياه(تكملة فتح المنعم شرح صحيح مسلم٣٨٢/٤،باب تحریم اللعب بالنردشیر،داراحياء التراث العربي بيروت)

(١٣)یوگا ورزش کرنے والا یوگا میں مہارت حاصل کرنے اور اس کے ذریعہ خلاف عادت افعال پرقادر ہونے کے درپے نہ ہو۔

قوله تعالى:(والذين هم عن اللغو معرضون) وفي اللغو أقوال: أحدها: أنه يدخل فيه كل ما كان حراما أو مكروها أو كان مباحا، ولكن لا يكون بالمرء إليه ضرورة وحاجة وثانيها: أنه عبارة عن كل ما كان حراما فقط، وهذا التفسير أخص من الأول وثالثها: أنه عبارة عن المعصية في القول والكلام خاصة، وهذا أخص من الثاني ورابعها: أنه المباح الذي لا حاجة إليه.(تفسير الفخر الرازي،٨٠/٢٣،سورة المؤمنون،دارالفكر بيروت)

(١٤)محض یوگا ورزش میں بہتری اورترقی کے حصول کیلئے حلال چیزوں (مثلاً گوشت) سے پرہیز کا التزام نہ کرے۔

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا ٱضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ(سورة الانعام ايت ١١٩)
وسبب نزول الآية على مقاله الامام أبو منصور أن المسلمين كانوا يتحرجون من أكل الطيبات تقشفا وتزهدا فنزلت وقد فصل لكم ما حرم عليكم۔(تفسیر روح المعاني ص١٤ج٨،داراحياء التراث العربي بيروت)

(١٥) یوگا ورزش میں اس قدر انہماک نہ ہو کہ فرائض اور واجبات میں کوتاہی واقع ہو۔

قوله(باب كل لهو باطل إذا شغله) أي شغل اللاهي به عن طاعة الله ) أي كمن النهى بشيء من الأشياء مطلقا سواء كان مأذونا في فعله أو منهيا عنه كمن اشتغل بصلاة نافلة أو بتلاوة أو ذكر أو تفكر في معاني القرآن مثلا حتى خرج وقت الصلاة المفروضة عمدا فإنه يدخل تحت هذا الضابط وإذا كان هذا في الأشياء المرغب فيها المطلوب فعلها فكيف حال ما دونها.(فتح الباري بشرح صحيح البخاري ٢٧٠/١٤،باب كل لهو باطل إذا شغله عن طاعة الله ومن قال لصاحبه تعال أقامرك،كتاب الاستئذان،دارطيبه، الرياض)(مستفاد:دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی پاکستان)

لہذا صورت مسئولہ میں ان تمام باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اگر کوئی شخص یوگا کرنا چاہے تو اسکی گنجائش ہے،لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آپنے یوگا ہی کو کیوں تسلیم کیا ؟کیا دیگر کوئی پاک صاف ورزش موجود نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۰،محر الحرام ۱۴۴۳ھ م ۲۰ اگست ۲۰۲۱ء بروز جمعہ

تائید کنندگان
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مولوی عبد الرحمن انصاری غفرلہ
مفتی محمد زکریا اچلپوری الحسینی
مفتی شاہد جمال پشاوری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے