میرے پاس تین تولہ سونا اور نقدی ہے کیا میرے اوپر زکوۃ واجب ہے ۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 117

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت ایک صاحب کے پاس تین تولہ سونا اور تیس ہزار نقدی ہے اسی طرح ایک صاحب کے پاس دس تولہ چاندی اور نقدی ہے اور ایک صاحب کے پاس صرف تین تولہ سونا ہے نقدی نہیں ہے تو تمام صورت میں کس کس پر زکوٰۃ واجب ہے۔(مفتی محمد انظر غفرلہ منگل دائی آسام الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
حامداً ومصلیا اما بعد:
فقہاء علیہ الرحمہ نے( سونا,چاندی، مال تجارت ،ونقدی) ناقص نصاب کی صورت میں انفع للفقراء کو پیشِ نظر رکھ کر ایک کو دوسرے کے ساتھ ضم کر کے زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں پہلی اور دوسری صورت میں نقدی اور زیور کی قیمت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی،اور تیسری صورت میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن عبيدة قال سألت ابراهيم عن رجل له مئة درهم وعشرة دنانير قال يزكي من المئة درهم درهمين ونصفا ومن الدنانير بربع دينار قال وسالت الشعبي فقال يحمل الاكثر على الاقل او قال الاقل على الاكثر فاذا بلغت فيه الزكاة زكاه.(المصنف لابن أبي شيبة ٣٩٣/٦،کتا ب الزکاۃ، فی الرجل تکون عندہ ، مئۃ درہم وعشرۃ دنانیر،رقم: ۹۹۷۸،مؤسسه علوم القرآن)

وفی(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)(قوله ويضم إلخ) أي عند الاجتماع.…وفي البدائع أيضا أن ما ذكر من وجوب الضم إذا لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان أقل، فلو كان كل منهما نصابا تاما بدون زيادة لا يجب الضم؛ بل ينبغي أن يؤدي من كل واحد زكاته، فلو ضم حتى يؤدي كله من الذهب أو الفضة فلا بأس به عندنا، ولكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا وإلا يؤدي من كل منهما ربع عشره (قوله: وعكسه) وهو ضم الفضة إلى الذهب، وكذا يصح العكس في قوله وقيمة العرض تضم إلى الثمنين عند الإمام كما مر عن الزاهدي، وصرح به في المحيط أيضا… (قوله: قيمة) أي من جهة القيمة، فمن له مائة درهم وخمسة مثاقيل قيمتها مائة عليه زكاتها.(رد المحتار علی الدر المختار٢٣٤/٣تا٢٣٥، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال،قبل: مطلب في وجوب الزكاة في دين المرصد،دارالكتب العلمية بيروت)(مستفاد: فتاویٰ قاسمیہ۳۸۴/۱۰) فتاویٰ فلاحیہ ۲۹۱/۳)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۲۱،رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ م ۲۳ اپریل ۲۰۲۲ء بروز سنیچر

تائید کنندگان
مفتی محمد سرفراز رحمانی غفرلہ
مفتی شاہد جمال پشاوری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے