اجرت ختم قرآن کریم پر ایک اہم فتاوی

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
اجرت ختم قرآن سے متعلق ایک اہم فتویٰ
حضرت مفتی صاحب الجامعۃ الاسلامیہ دارالعلوم خولنا بنگلہ دیش، دامت برکاتہم
سوال 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: بعد سلام مسنون گزارش ہے کہ ہم لوگ رمضان شریف میں ختم تراویح پڑھ کر حافظ صاحب کو پیسہ دیا کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ دینا جائز ہے یانہیں؟ اور جائز نہ ہو تو کوئی ایسی صورت ہے کہ جس کی وجہ سے جائز ہو، دلیل کے ساتھ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
المستفتی: حافظ محمد قطب الدین محمود نوا پاڑا، متعلم کڑیا مدرسہ خولنا، بنگلہ دیش

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان کے مہینہ میں ختم تراویح پڑھ کراجرت دینا جائز ہے، چاہے وہ امام حافظ ہو یا قاری، تھوڑا پڑھا ہو یا پورا ختم پڑھا ہو؛ کیوں کہ رمضان کے مہینہ کی تراویح میں قرآن پاک کو ختم کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ اور تراویح خاص طور سے ختم قرآن ہی کے لئے ہے، جیسا کہ تراویح کی جماعت سنت مؤکدہ یعنی واجب کے قریب قریب ہے، ویسا ہی پانچ وقت کی نماز کے لئے اذان دینا وامامت کرنا، سنت مؤکدہ ہے، تو اس کے لئے اجرت لینے میں جیسے کوئی منع نہیں ہے، اسی طرح تراویح کی نماز میں بھی اجرتلینے میں کوئی منع اور رکاوٹ نہیں ہے؛ کیوں کہ دونوں ہی ضروریات دین میں شامل ہیں اور تراویح کی نماز میں قرآن ختم کرنا صرف تلاوت مجردہ نہیں ہے، اس کے متعلق مندرجہ اقوال علماء متأخرین کے یہ ہیں:
مسلمانوں پر جس عبادت کو فرض کیا گیا ہے، اس عبادت پر اجرتلینا جائز نہیں ہے، یہی متقدمین کا فتویٰ ہے؛ کیوں کہ متقدمین حضرات کے زمانہ میں معلم اور استاذ قرآن اور حدیث کو نیکی سمجھ کر تعلیم دیا کرتے تھے اور طلبہ ومتعلمین حضرات ان لوگوں کے احسان کا بدلہ احسان ہی کے ذریعہ دیا کرتے تھے اور ان دونوں فریق یعنی استاذ اور شاگرد کے درمیان کوئی شرط نہیں ہوتی تھی، بعد میں یہ حالت پیش آئی کہ مذکورہ چیز امت سے رخصت ہونے لگی، جس کی وجہ سے نہ اس قسم کے استاذ ملتے ہیں نہ اس قسم کے طلبہ کہ بلا اجرت دین کا کام کریں، اسی وجہ سے متأخرین میں سے بعض حضرات نے عبادت مؤکدہ پر اجرت لینے کی اجازت کو اچھا سمجھا اور اس پر فتویٰ دیا۔ 

صاحب ہدایہ شیخ الاسلام برہان الدین مرغینانی نے لکھا ہے:
ولا الاستئجار علی الأذان والحج، وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن، والفقہ (وبین السطور ہذا علی رأی المتقدمین) لقولہ علیہ السلام: اقرؤا القرآن، ولا تأکلوا بہ، وفي آخر ماعہد رسول اﷲ علیہ السلام إلی عثمان بن أبي العاص، وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ علی الأذان أجرًا وبعض مشایخنا (وبین السطور مشایخ بلخ)

استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم؛ لأنہ ظہر التوانی في الأمور الدینیۃ، ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن، وفي الحاشیۃ علی الامتناع فإن المتقدمین من أصحابنا بنوا جوابہم علی ما شہدوا في عصر ہم من رغبۃ الناس في التعلیم بطریق الحسبۃ، ومروۃ المتعلمین في مجازاۃ الإحسان بالإحسان من غیر شرط، وأما في زماننا فقد انعدم المغیان جمعیا۔ (ہدایہ أشرفی ۳/ ۳۰۳)
عمدۃ المتأخرین علامہ ابن عابدین نقل کرتے ہیں:
ولا لأجل الطاعات مثل الأذان، والحج، والإمامۃ، وتعلیم القرآن، والفقہ، ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (الدرالمختار، کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۶)

ان قولوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں امامت واذان اور تعلیم قرآن دے کر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، رمضان شریف میں نماز تراویح کی امامت دوسری نماز کی امامت سے الگ کوئی نماز نہیں ہے۔
(۱) دلیل: الأذان سنۃ (وبین السطور مؤکدۃ)۔ (ہدایۃ اشرفی ۱/ ۸۷)
(۲) الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ؛ لقولہ علیہ السلام: الجماعۃ من سنن الہدی۔ (ہدایۃ اشرفی ۱/ ۱۲۱)
(۳) الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ، أي تشبیہ الواجب في القوۃ۔ (الکفایۃ ۱/ ۲۹۹)
(۴) لأن المؤکدۃ في حکم الواجب في لحقوق الإثم بالترک۔ (ردالمحتار ۱/ ۸۴)
(۵) والسنۃ فیہا (في ترویحۃ) الجماعۃ۔ (ہدایۃ اشرفی ۱/ ۱۵۱)
(۶) وأکثر المشایخ علی أن السنۃ فیہا الختم مرۃ، فلا یترک لکسل القوم، وفي الحاشیۃ: والختم مرۃ سنۃ مؤکدۃ۔ (ہدایہ اشرفی ۱/ ۱۵۱)
تراویح ختم قرآن کے لئے ہے: عمدۃ المتأخرین علامہ ابن عابدین نقل کرتے ہیں:
ثم إذا ختم قبل آخر الشہر قیل: لا یکرہ لہ ترک التراویح فیما بقي؛ لأنہا شرعت لأجل ختم القرآن مرۃ، قالہ أبو علی النسفي: وقیل یصلیہا ویقرأ فیہا ماشاء ذکرہ في الذخیرۃ۔ (الدرالمختار، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۳/ ۴۹۷)

غلط فہمی کا ازالہ: تلاوت مجردہ اور ایصال ثواب پر تراویح کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے؛ کیوں کہ تلاوت مجردہ اور ایصال ثواب میں ختم قرآن ہوتا ہے۔ اور تراویح کی نماز دوسری نماز کی طرح ہے، رکوع سجدہ اور ارکان کے اعتبار سے جس میں کوئی کمی نہیں کی جاتی، اس کے باوجود اس کو کس طرح تلاوت مجردہ پر قیاس کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے تلاوت مجردہ کی طرح اجرت لینے کو ناجائز کہنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ کیوں کہ تلاوت مجردہ کے معنی صرف تلاوت کرکے اس کا ثواب پہنچانا اجرت لے کر جو تراویح کے ساتھ کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتی؛ بلکہ پانچ وقت کی نماز، جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھانے والے امام کو ضروریات دین کے خاطر اگر اجرت دینا جائز ہے، توتراویح کی نماز پڑھانے والے امام کو اجرت دینا کس طرح ناجائز ہوسکتا ہے؟
نماز تراویح سنت مؤکدہ اور ختم قرآن بھی سنت مؤکدہ ہے، اگر حافظ کو اجرت نہ دی جائے تو وہ قرآن بھول جائے گا اور صرفتراویح کے لئے کوئی حافظ نہیں ملے گا، اگر مل بھی جائے تو عدد کے اعتبار سے بہت ہی کم، اب ہرجگہ حافظ کو اجرت دی جارہی ہے، تو اس کو عموم بلویٰ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ دو اصول کے تحت ضروریات دین کی خاطر وقتیہ نماز کی طرح تراویح پڑھانے والے حافظ کو بھی اجرت دینا جائز ہے۔ 
وﷲ أعلم وعلمہ أتم وأحکم۔
غلام رحمن، خادم دارالافتاء دارالعلوم مدرسہ خولنا بنگلہ دیش
۲/ ۸/ ۱۴۲۴ھ

مذکورہ فتویٰ سے متعلق دارالعلوم دیوبند کے ایک طالب علم کا استفتاء
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
بخدمت مفتیان کرام دارالافتاء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ
بعد سلام مسنون گزارش ہے کہ مذکورہ فتویٰ کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے، اگر یہ مسئلہ صحیح ہے تو تائید فرمائیں، اور اگر غلط ہے تو مدلل اور مفصل تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔ فقط والسلام
المستفتی: مصطفی کمال بنگلہ دیش، متعلم دارالعلوم دیوبند

اجرت ختم قرآن کے عدم جواز پر دارالافتاء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد 
کی طرف سے ایک جامع اور مفصل فتویٰ
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: برادر عزیز جناب مولوی مصطفی کمال صاحب متعلم دارالعلوم دیوبند! آں عزیز نے ختم قرآن پر اجرت کے جواز پر جناب مفتی غلام رحمن کا مفصل فتویٰ روانہ فرمایا ہے، اس فتویٰ کو بار بار پڑھا گیا اور اس کے بالمقابل حضرات فقہاء کرام اور اکابر اہل فتاویٰ کی عبارات اور ان کی آراء پر بھی بار بار نظر ڈالی گئی، آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مذکورہ فتویٰ فقہائے عظام، اکابر اہل فتاوی اور جمہور امت کے خلاف ہے اور جتنے قیاس واستدلال سے کام لیا گیا ہے وہ بھی درحقیقت برمحل نہیں ہیں؛ اس لئے مذکورہ فتویٰ صحت پر محمول نہیں ہے، اور نہ ہی تراویح میں قرآن سنا کر اجرت لینا جائز اور درست ہے، لینے والے اور دینے والے دونوں گنہگار ہوںگے، مذکورہ فتویٰ سے متعلق چند مخصوص مسامحت کی نشاندہی کی جاتی ہے:

(۱) مذکورہ فتویٰ میں تراویح کے ختم قرآن کو تعلیم قرآن پر قیاس کیا گیا ہے، یہ قیاس درست نہیں؛ کیوں کہ ختم قرآن ایک مستقل چیز ہے اور تعلیم قرآن اس سے الگ دوسری چیز، اس لئے کہ تراویحمیں قرآن پڑھنے اور استاذ وشاگرد کے درمیان قرآن کی تعلیم دینے میں بہت بڑا فرق ہے؛ کیوں کہ تعلیم قرآن میں سیکھنا سکھانا مقصود ہوتا ہے، ایک ایک آیت کو بار بار پڑھ کر اور پڑھا کر استاذ کی طرف سے شاگرد کو سکھانے اور یاد کرانے میں محنت ہوتی ہے اورتراویح میں قرآن پڑھنے والے اور سننے والے کے درمیان یہ محنت اور سیکھنا سکھانا لازم نہیں آتا؛ بلکہ وہ محض تلاوت مجردہ کے مشابہ ومرادف اور اسی کے حکم میں ہے۔
ثم استثنوا تعلیم القرآن من الطاعات، وبعضہم استثنی أیضا تعلیم الفقہ والإمامۃ، والأذان، والإقامۃ، کما علمت ذلک مما نقلناہ عن المتون وغیرہا، وہذا من أقوی الأدلۃ علی ما قلنا من أن ما أفتوا بہ لیس عاما في کل طاعۃ، بل ہو خاص بما نصوا علیہ مما وجد فیہ علۃ الضرورۃ والاحتیاج۔ (رسائل ابن عابدین، الرسالۃ السابعۃ، ثاقب بکڈپو دیوبند ۱/ ۱۶۳)
لہٰذا فاضل مفتی صاحب کا قیاس درست نہیں ہے۔
(۲) فاضل مفتی صاحب نے تراویح میں قرآن سنانے کو عام نمازوں کی امامت کے مشابہ قرار دینے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور ساتھ میں حضرات فقہاء اور اکابر اہل فتاوی کی رائے پر بڑے زور دار الفاظ سے رد فرمایا ہے کہ تلاوت مجردہ اور ایصال ثواب پرتراویح کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، اس میں فاضل مفتی صاحب کو سخت مسامحت ہوئی ہے، انہوں نے استدلال کرتے وقت محض تراویح کا لفظ استعمال کیا ہے، تراویح میں ختم قرآن کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے؛ لیکن سیاق وسباق اور مفتی صاحب کا مقصد اس عبارت سے یہی ہےکہ تراویح میں قرآن سنانے کو تلاوت مجردہ پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، فاضل مفتی صاحب کو اس تردید میں مسامحت اس لئے ہوئی ہے کہ انہوں نے نماز تراویح اور ختم قرآن کو ایک ہی کردیا ہے اور دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے لاینفک بنا دیا ہے، جیسا کہ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے
کہ تراویح پڑھنے کی بنیاد قرآن سنانا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غیر حافظ عالم دین تراویح کی نماز میں امامت کرے گا، تو کیا تراویح کی نماز صحیح نہیں ہوگی؟ میرے خیال میں تو فاضل مفتی صاحب ضرور جواب دیںگے کہ تراویح کی نماز صحیح ہوجائے گی، تو پھر تراویح میں ختم قرآن لازم کہاں سے آیا؟ بلکہ بعض دفعہ لوگوں پر شاق گذرنے کی صورت میں بغیر ختم کے مختصر سورتوں سے قرآن پڑھنا زیادہ افضل ہے، جیسا کہ فقہاء کی حسب ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے۔
وقیل: من سورۃ الفیل إلی الآخر مرتین، وہو الأحسن عند أکثر المشایخ، وفي أکثر المعتبرات الأفضل في زماننا أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ؛ لأن تکثیر الجماعۃ أفضل من تطویل القراء ۃ، وبہ یفتی۔ (مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح، مصري قدیم ۱/ ۱۳۷، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۰۴)
درحقیقت صحیح بات یہی ہے کہ دو سنتیں الگ الگ ہیں، جیسا کہ موصوف نے بھی اپنی تحریر کے اخیر میں اس کا اقرار کیا ہے۔
(۱) نفس تراویح کی نماز جو مختصر سے مختصر سورتوں کے ذریعہ بھی پوری ہوجاتی ہے، جیسا کہ جن مساجد میں ختم قرآن نہیں ہوتا ہے، ان میں سے اکثر مساجد میں الم تر کیف سے تراویح کی نماز ہوتی ہے، اس سے بھی تراویح کی سنت مکمل طریقے سے ادا ہوجاتی ہے، جیسا کہ فقہاء کی عبارات ذیل سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے:
لو قرأ ثلاثا قصارا، أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن، ولم یسئي، فما ظنک بالتراویح، وفي فضائل رمضان للزاہدي: أفتی أبوالفضل الکرماني والوبري أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحۃ وآیۃ أو آیتین لا یکرہ، ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۸، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، الصلاۃ، التراویح، دارالکتاب دیوبند جدید، ص: ۴۱۵)
والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصار، أو آیۃ طویلۃ حتی لا یمل القوم ولا یلزم تعطیلہا۔ (شامي، الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۸)
وفي التجنیس: واختار بعضہم سورۃ الإخلاص في کل رکعۃ، وبعضہم سورۃ الفیل، أي البداء ۃ منہا ثم یعیدہا، وہذا أحسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات، قال في الحلیۃ: وعلی ہذا استقر عمل أئمۃ أکثر المساجد في دیارنا۔ (شامي، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۸، الفتاوی التاتارخانیۃ، الصلاۃ، الفصل الثالث عشر التراویح، زکریا ۲/ ۳۲۵، رقم:۲۵۵۷)
أي البدائۃ منہا إلی آخرہ أي إلی آخر القرآن في عشر رکعات، ثم یعید من سورۃ الفیل إلی الآخر في العشر الثاني۔ (تقریرات رافعي/۱۲۸، مع الشامي، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۸)
(۲) تراویح میں سہولت سے ہوسکے تو قرآن کریم ختم کیا جائے، اس میں بھی تفصیل یہ ہے کہ اگر آسانی سے ہوسکے تو تین ختم کرے، یہ نہ ہوسکے تو دو ختم کرے، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایک ختم کرے۔ اور اگر ایک ختم بھی لوگوں پر شاق گذرے تو پھر ختم قرآن نہ کرے؛ بلکہ مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ لی جائے، جیسا کہ حسب ذیل فقہی عبارت سے واضح ہوتا ہے۔
والختم مرۃ سنۃ، ومرتین فضیلۃ، وثلاثا أفضل، ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأفضل في زماننا قدر ما یثقل علیہم۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، مبحث في صلاۃ التراویح، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۷)
اب ان عبارات سے صاف واضح ہوگیا کہ تراویح اور ختم قرآن دونوں الگ الگ دو چیزیں ہیں، تراویح کی سنیت عمومی سنت مؤکدہ ہے، عالم حافظ عامۃ المسلمین سب کے لئے نفس تراویح جو ’’مایجوز بہ الصلاۃ‘‘ قراء ت کے ذریعہ سے پوری ہوسکتی ہے، سنت مؤکدہ ہے، جیسا کہ دنیا کی لاکھوں مساجد میں مختصر قراء ت اور الم ترکیف سےتراویح کی نماز ہورہی ہے اور وہ لوگ اسی سے تراویح کی سنت کا ثواب حاصل کررہے ہیں اور تراویح میں قرآن ختم کرنے کی سنت بالکل الگ دوسری چیز ہے۔ اور یہ سنت عمومی اور آفاقی نہیں ہے؛ بلکہ خصوصی اور جزوی ہے اور وہ بھی بشرط گنجائش اور بشرط سہولت ہے، اس سنت کو حاصل کرنے کے لئے ناجائز اور حرام طریقہ یعنیاجرت دے کر قرآن سننا اور اجرت لے کر قرآن سنانا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ جو کہ نہ تراویح کا جزو حقیقی ہے اور نہ ہی تراویحکے لئے لازم ہے، جیسا کہ فقہاء کی اس قسم کی عبارت سے واضح ہوتا ہے:
ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطي آثمان، فالحاصل: أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ، وإعطاء الثواب للآخر، والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعۃ، زکریا ۹/ ۷۷، کراچی ۶/ ۵۶)
(۳) فاضل مفتی صاحب نے علامہ شامی رحمۃ ﷲ علیہ کے ایک غیر مفتی بہ اور کمزور قول کو نقل کرکے دعویٰ کیا ہے کہ تراویح ختم قرآن ہی کے لئے ہے، یعنی تراویح کا مقصد ہی قرآن ختم کرنا ہے، نفس نماز تراویح مقصد نہیں ہے؛ لہٰذا اگر پانچ دن میں، دس دن میں قرآن ختم ہوجائے تو آئندہ دوسرے اور تیسرے عشرہ میں اگر تراویح نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ فقہاء کے اقوال میں نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار قول ہے، مفتی کے لئے معتبر اور مفتی بہ قول کی موجودگی میں غیر مفتی بہ اور کمزور وضعیف قول پر فتویٰ جاری کرنا ممنوع ہے، اس مسئلہ میں مفتی بہ اور معتبر قول یہی ہے کہ تراویح صرف ختم ہی کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ یہ مستقل سنت ہے جو ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک مسلسل جاری رہتی ہے؛ لہٰذا جن مساجد میں ختم قرآن کا سلسلہ ہے اور دس یا پندرہ دن میں قرآن ختم ہوجاتا ہے، تو بقیہ ایام میں اخیر مہینہ تک مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح کا سلسلہ جاری رکھنا مسنون اور افضل ہے، اسی طرح جن مساجد میں ختم قرآن نہیں ہوتا اور مختصر قراء ت سے نمازتراویح پڑھی جاتی ہے، ان میں بھی پورے رمضان بغیر ختم قرآن کے نماز تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے، اسی پر فقہاء کا فتویٰ ہے، جیسا کہ حسب ذیل عبارات فقہیہ سے واضح ہوتا ہے:
لو حصل الختم لیلۃ التاسع عشر، أو الحادي والعشرین لا تترک التراویحفي بقیۃ الشہر؛ لأنہا سنۃ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ، الأصل أنہ یکرہ لہ الترک، کذا في السراج الوہاج۔ (ہندیۃ، الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح، زکریا قدیم ۱/ ۱۱۸، جدید ۱/ ۱۷۷)
ولو ختم في التراویح في لیلۃ، ثم لم یصل التراویح جاز بلا کراہۃ؛ لأنہ ماشرعت التراویح إلا للقراء ۃ، وقیل: الأفضل أن یقرأ فیہا مقدار ما یقرأ في المغرب، وقیل: آیتین متوسطتین، وقیل: آیۃ طویلۃ، أو ثلاث آیات قصار، وہذا أحسن، وبہذا أفتی المتأخرون۔ (مجمع الأنہر الجدید، کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۰۴)
وقیل: من سورۃ الفیل إلی الآخر مرتین، وہو الأحسن عند أکثر المشایخ، وفي أکثر المعتبرات الأفضل في زماننا أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ؛ لأن تکثیر الجماعۃ أفضل من تطویل القراء ۃ، وبہ یفتی۔ (مجمع الأنہر، الصلاۃ، فصل في التراویح، دارالکتب العلمیۃ، بیروت جدید ۱/ ۲۰۴)
وأما الذي ہو سنن الصحابۃ فصلاۃ التراویح في لیالی رمضان (إلی قولہ) أما صفتہا فہي سنۃ، کذا روی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ قال: القیام في شہر رمضان سنۃ لا ینبغي ترکہا۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل في سنن التراویح، کراچی ۱/ ۲۸۸، زکریا ۱/ ۶۴۴)
(۴) مذکورہ فتویٰ میں ختم قرآن پر اجرت کے جواز کے لئے فاضل مفتی صاحب نے بار بار اس طرح کی عبارتیں لکھیں ہیں کہ جب عام نمازوں کی امامت پر اجرت دینا درست ہے، تو رمضان شریف میں نماز تراویح کی امامت دوسری نمازوں کی امامت سے الگ کوئی نماز نہیں ہے۔ اور کہیں لکھا ہے کہ تراویح کی نماز دوسری نماز کی طرح ہے، رکوع، سجدہ وارکان کے اعتبار سے اس میں کوئی کمی نہیں کی جاتی، تو عجیب حیرت کی بات یہ ہے کہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہتراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور جب دلیل اور قیاس ومقیس علیہ اور مشبہ مشبہ بہ پیش کرتے ہیں تو اس میں نماز تراویح کو پیش کرتے ہیں، ختم قرآن کا ذکر نہیں کرتے؛ حالانکہ موضوع بحث ختم قرآن پر اجرت کا جواز اور عدم جواز ہے، نفس تراویح پر اجرتکا جواز اور عدم جواز نہیں ہے، اگر کسی جگہ الم تر کیف سے تراویحکی نماز ہوتی ہے اور امام اس پر اجرت لیتا ہے تو میری معلومات میں فقہائے متأخرین اور اکابر اہل فتاویٰ میں سے کسی نے بھی اس کے عدم جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے، یہ عجیب خلط مبحث ہے؛ حالانکہ اخیر میں موصوف نے تراویح اور ختم قرآن کو الگ الگ دو سنتیں جدا گانہ تسلیم بھی کیا ہے، حضرات فقہاء اور اکابر اہل فتاویٰ ختم قرآن کی سنیت کے بھی قائل ہیں اور اس پر اجرت لینے کی حرمت کے بھی قائل ہیں، موضوع بحث ختم قرآن والی سنت ہے نہ کہ نماز تراویحوالی سنت، نیز تلاوت قرآن پر اجرت لینے کی ممانعت نص قطعی سے ثابت ہے۔ اور اذان واقامت پر اجرت لینا نص قطعی سے ثابت نہیں ہے؛ اس لئے دونوں ایک نہیں ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے مقیس علیہ بن سکتے ہیں، اسی لئے فقہاء نے صاف الفاظ میں اس کی وضاحت کردی ہے کہ ضرورت کی بنا پر تعلیم قرآن، فقہ، حدیث، تفسیر، اذان، امامت، قضاء اور افتاء پر اجرت کی گنجائش قرار دے کر صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ان کے ماعدا پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، پھر مزید قراء ت قرآن کو خاص طور پر متعین کرکے ذکر کیا ہے کہ اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، جیسا کہ فقہاء کی حسب ذیل عبارات سے واضح ہوتا ہے:
وقد اتفقت کلمتہم جمیعا علی التصریح بأصل المذہب من عدم الجواز، ثم استثنوا بعدہ ما علمتہ، فہذا دلیل قاطع وبرہان ساطع علی أن المفتی بہ لیس ہو جواز الاستئجار علی کل طاعۃ، بل علی ما ذکروہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاہرۃ تبیح الخروج عن أصل المذہب من طرو المنع، فإن مفاہیم الکتب حجۃ، ولومفہوم لقب علی ما صرح بہ الأصولیون، بل ہو منطوق، فإن الاستثناء من أدوات العموم کما صرحوا بہ أیضا۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۶، زکریا ۹/ ۷۶)
یظہر لک أن العلۃ في جواز الاستئجار علی تعلیم القراء ۃ، والفقہ، والأذان، والإمامۃ ہي الضرورۃ، واحتیاج الناس إلی ذلک، وإن ہذا مقصور علی ہذہ الأشیاء دون ما عداہا مما لا ضرورۃ إلی الاستئجار علیہ۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۱)
ثم استثنوا تعلیم القرآن من الطاعات، وبعضہم استثنی أیضا تعلیم الفقہ والإمامۃ، والأذان، والإقامۃ، کما علمت ذلک مما نقلناہ عن المتون وغیرہا، وہذا من أقوی الأدلۃ علی ما قلنا من أن ما أفتوا بہ لیس عاما في کل طاعۃ، بل ہو خاص بما نصوا علیہ مما وجد فیہ علۃ الضرورۃ والاحتیاج۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو دیوبند ۱/ ۱۶۳)
أن ما أجازہ المتأخرون إنما أجازوہ للضرورۃ، ولا ضرورۃ في الاستئجار علی التلاوۃ، فلا یجوز۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۸)
اوپر جو یہ بات لکھی گئی کہ الم تر کیف وغیرہ سے نفس تراویح پراجرت کے عدم جواز کا کوئی قائل نہیں ہے، یہ صرف اسی وقت ہے جب کہ صرف امامت تراویح ہی مقصود ہو، ختم قرآن مقصود نہ ہو، اگر ختم قرآن کو مقصود بنا کر تراویح کے لئے الگ سے امام رکھنے کا حیلہ کیا جائے گا، تو یہ حیلہ مفید حلت نہیں ہوگا، چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: ’’یہ جواز کا فتویٰ اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو؛ حالانکہ یہاں مقصود ختم تراویح ہے اور یہ محض حیلہ ہے دیانات میں جو کہ معاملہ فی ما بین العبد وبین ﷲ ہے، حیل مفید جواز واقعی نہیں ہوتے؛ لہٰذا یہ ناجائز ہوگا‘‘۔ (امداد الفتاوی، زکریا ۱/ ۴۹۵)
اس لئے یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہونی چاہئے کہ جب نفس تراویح میں امامت پر اجرت کی حلت ہوگئی تو ختم قرآن پر بھی حلت آجائے گی، ختم قرآن پر اجرت بہر حال حرام رہے گی۔
(۵) موصوف نے اس بات پر بھی بہت زور لگایا ہے کہ سنت کو سنت پر قیاس کیا جائے کہ اذان بھی سنت، امامت بھی اور ختم قرآن بھی سنت ہے، جب اذان وامامت کی سنت کی بقا کے لئے اجرت لینا دینا درست ہے، تو ختم قرآن کی سنت کی بقا کے لئے بھی اجرت لینا درست ہونا چاہئے، موصوف کا اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے یہی مرکز استدلال ہے، اس میں موصوف نے یہ خیال نہیں کیا ہے کہ جماعت اور اذان کی سنت اپنی اپنی جگہ مستقل بالذات ہے، مگرتراویح میں ختم قرآن کی سنت مستقل بالذات نہیں ہے؛ بلکہ ایسی ضمنی اور اضافی سنت ہے کہ اس سنت کے بغیر نفس نماز تراویح میں کوئی کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کی سنیت بدستور باقی ہے، جب کہ اذان اور امامت ایسی مستقل بالذات سنت ہے کہ اگر مؤذن نہ ہو تو اذان کا وجود نہیں ہوسکتا، اسی طرح اگر امام نہ ہو تو جماعت کا وجود نہیں ہوسکتا اور اذان وجماعت کا وجود ضروریات دین اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اور ان کی اجرت کی ممانعت قرآن کریم کی نص قطعی سے ثابت نہیں ہے؛ اس لئے فقہائے متأخرین نے ضرورت کی وجہ سے ان کی اجرت کے جواز پر فتویٰ دیا ہے، مگرنماز تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا ایسی مستقل بالذات سنت نہیں ہے کہ اس کے نہ ہونے کی وجہ سے نفس نماز تراویح اور نماز تراویح کی امامت کا وجود ختم ہوجاتا ہو؛ بلکہ نفس نماز تراویح اور اس کی امامت بدستور باقی رہ جاتی ہے، نیز ختم قرآن کی تلاوت اور تلاوت مجردہ دونوں بالکل یکساں ہیں اور تلاوت مجردہ پر اجرت کی حرمت قرآن کریم کی نص قطعی سے ثابت ہے، جیسا کہﷲ تعالیٰ کا قول: ’’لَاتَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً‘‘ [سورۃ المائدۃ: آیت: ۴۴] تو پھر ایسی صورت میں ختم قرآن کی سنت اذان وامامت کی سنت کے برابر کیسے ہوسکتی ہے؟ اور ختم قرآن کی سنت کو اذان واقامت کی سنت کے برابر قرار دے کر اس پر اجرت کو جائز کہنا قطعاً غلط اور بے عقلی کی بات ہوگی، اسی وجہ سے حضرات فقہاء نے ضرورت کی وجہ سے جن امور میں اجرت لینے کی گنجائش دی ہے، ان کو نامزد بھی کردیا ہے، اور ان کے ماعدا میں اجرت کو ناجائز کہا ہے۔ اور ختم قرآن کی اجرت بھی ماعدا میں شامل ہے، جیسا کہ حسب ذیل عبارات فقہیہ سے واضح ہوتا ہے:
إن ما أجازہ المتأخرونإنما أجازوہ للضرورۃ، ولا ضرورۃ في الاستئجار علی التلاوۃ، فلا یجوز۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۸)

یظہر لک أن العلۃ في جواز الاستئجار علی تعلیم القراء ۃ، والفقہ، والأذان، والإمامۃ ھي الضرورۃ واحتیاج الناس إلی ذلک، وإن ہذا مقصور علی ہذا الأشیاء دون ماعداہا مما لا ضرورۃ إلی الاستئجار علیہ۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۱)
(۶) موصوف نے جواز کے لئے ایک علت یہ بھی بیان کی ہے کہ اگر حافظ کو اجرت دے کر اس کا قرآن نہ سنا جائے تو حافظ صاحب قرآن بھول جائیںگے؛ اس لئے ’’الضرورات تبیح المحضورات‘‘ کے تحت ضروریات دین کی خاطر وقتیہ نماز کی طرح حافظ صاحب کو بھی اجرت دینی چاہئے، تو اب سوال یہ ہے کہ حافظ صاحب کے قرآن یاد رکھنے کے ذمہ دار یہی مقتدی حضرات ہیں یا خود حافظ صاحب اس کے مکلف ہیں؟ کیا حافظ صاحب اگر قرآن بھول جائیںگے، تو ﷲ کے یہاں قرآن بھولنے کی جو سزا ہے اس میں عوام الناس بھی شامل ہوںگے یا صرف حافظ صاحب پر ہوگی؟ شاید مفتی صاحب کو یہ کہنے پر مجبور ہوناپڑے گا کہ قرآن بھولنے کی سزا صرف حافظ صاحب کو ملے گی،عوام اور مقتدیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
عن أنس بن مالک رضيﷲ عنہ قال: قال رسولﷲ ﷺ: عرضت علي أجور أمتي حتی القذاۃ یخرجہا الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب أمتي، فلم أر ذنبا أعظم من سورۃ من القرآن، أو آیۃ أوتیہا رجل، ثم نسیہا۔ (سنن الترمذي، أبواب فضائل القرآن، باب بلا ترجمۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۱۹، دارالسلام، رقم: ۲۹۱۶، سنن أبي داؤد، الصلاۃ، باب في کنس المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۶، دارالسلام، رقم: ۴۶۱، صحیح ابن خزیمۃ، المکتب الإسلامي ۱/ ۶۳۹، رقم: ۱۲۹۸، مسند البزار، مکتبۃ العلوم والحکم ۱۲/ ۳۳۹، رقم: ۶۲۱۹)

نیز کیا حافظ قرآن کے لئے یاد کرنے اور پڑھنے کا سال بھر میں یہی ایک مہینہ ہے یا بارہ مہینے اور ہمیشہ قرآن پڑھنے اور یاد رکھنے کا مکلف ہے؟ اس میں بھی شاید مفتی صاحب یہی جواب دیںگے کہ ہمیشہ قرآن پڑھنے اور یاد رکھنے کا مکلف ہے، ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ رمضان میں پڑھنے کا شوق زیادہ بڑھ جاتا ہے؛ اس لئے حافظ صاحب کے قرآن بھولنے کے خطرے کو عمومی سطح پر ضروریات دین میں شامل کرنا کہاں تک درست ہے؟ نیز جو حفاظ اجرت کے بغیر قرآن نہیں پڑھتے، ان کے قرآن بھول جانے سے دین اور قرآن پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اﷲ نے خود فرمایا ہے کہ: ’’انا لہ لحافظون‘‘ [سورۃ الحجر: ۹] اس کی حفاظت کا ذمہﷲ نے خود ہی لے لیا ہے، نیز خود ہمارے شہر مرادآباد میں تقریباً چھ سو مسجدیں ہیں، رمضان آنے سے کئی مہینہ پہلے سے ایک ایک مسجد میں کئی کئی حافظ بغیر اجرت کے قرآن سنانے کے لئے ذمہ داران مسجد کی خوشامد کرتے رہتے ہیںکہ کسی طرح قرآن سنانے کا موقع مل جائے، پھر مفتی صاحب کا یہ گمان کرنا کہاں تک درست ہے کہ دنیا کے تمام حفاظ کا حال یہی ہے کہ اجرت کے بغیر پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔(فتاوی قاسمیہ٤٥٥/٨تا٤٥٨)
تفصیل دیکھئے:فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٥٧٧)نیز دیکھئے:امداد الفتاوی جدید۳٣٠/٢تا۳۷۰)مزید دیکھئے:معاوضہ علی التراویح)
واللہ اعلم بالصواب 
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 

احمد نگر ہوجائی آسام

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے