تراویح کی اجرت لینا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

تراویح کی اجرت سے متعلق چند سوالات کے جواب

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
(۱) ایک شخص مسجد میں مستقل امام ہے، وہتراویح بھی پڑھاتا ہے، تو اس کے لئے مزید امامت تراویح پر اجرتلینا کس طرح جائز ہوگا؟ یعنی اس کے جائز ہونے کے لئے اس کو ذمہ داران مسجد سے کیا طے کرنا ہوگا، مثلاً کسی امام صاحب کو ہر ماہ تین ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، تو کیا رمضان شریف آتے ہی امامتتراویح کی الگ سے تنخواہ اور مدت طے کرنا واجب ہے، اگر نہ طے کرے تو کیا حکم ہے؟

(۲) ایک شخص صرف رمضان میں تراویح پڑھاتا ہے، مستقل امام نہیں، تو رقم پانے کے لئے اس کو امامت تراویح پر کیا اجرت مقرر کرنا واجب ہوگا؟ اور کیا یہ بھی طے کرنا ضروری ہوگا کہ اتنے روز تراویح پڑھاؤںگا؟
(۳) جو شخص تراویح کی امامت پر اجرت اور مدت مقرر نہ کرے اور ختم قرآن ہونے پر متولی مسجد بطور اجرت اور عام لوگ اپنی خوشی سے بطور ہدیہ وتحفہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق رقم یا کپڑے وغیرہ دیں تو کیا یہ دی گئی رقم امامت تراویح کی اجرت شمار ہوگی یا ختم قرآن کا ہدیہ وتحفہ شمار ہوگا؟ اور کیا یہ ہدیہ وتحفہ حلال ہوگا یا حرام؟ اگر اس آخری شکل میں امام تراویح کے اس ہدیہ وتحفہ کو اجرتتراویح خیال کرکے لے لے تو کیا یہ حلال ہوگا؟ 
برائے کرم جواب جلد مدلل ومفصل مع عبارات کتب احادیث وفقہ تحریر فرمائیں۔

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: متقدمین نے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز لکھا ہے، اسی طرح امامت واذان پر اجرت لینے کو بھی ناجائز لکھا ہے، جو اس طرح کی روایات سے واضح ہوتا ہے:

عن الطفیل بن عمرو -رضي اﷲ عنہ- اقرأني أبي بن کعب رضيﷲ عنہ القرآن، فأہدیت إلیہ قوسا، فغدا إلی النبي علیہ السلام وقد تقلدہ، فقال لہ النبي علیہ السلام: من سلمک ہذہ القوس یا أبي؟ فقال الطفیل بن عمرو الدوسي: اقراتہ القرآن، فقال لہ رسولﷲ -صلیﷲ علیہ وسلم- تقلدہا شلوۃ من جہنم۔ (المعجم الأوسط، قدیم ۱۰/ ۲۷۴، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۱۳۷، رقم: ۴۳۹، کنز العمال ۱/ ۲۳۱، حیاۃ الصحابۃ ۳/ ۱۱۷)
عن عبادۃ بن الصامت -رضيﷲ عنہ- قال: علمت ناسا من أہل الصفۃ الکتاب والقرآن، فأہدی إلي رجل منہم قوسا، فقلت: لیست بمال، وأرمی علیہا في سبیلﷲ عز وجل، لآتین رسول اﷲ فلأسألنہ، فأتیتہ، فقلت: یا رسولﷲ! رجل أہدی إلي قوسا ممن کنت أعلمہ الکتاب والقرآن، ولیست بمال وأرمي عنہا في سبیلﷲ؟ قال: إن کنت تحب أن تطوق طوقا من نار فاقبلہا۔ (سنن أبي داؤد، کتاب البیوع، باب في کسب المعلم، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۴۸۵، دارالسلام، رقم: ۳۴۱۶، المستدرک، کتاب البیوع، مکتبہ نزار مصطفی الباز جدید ۳/ ۸۶۰، ۸۶۱، رقم: ۲۲۷۷)
عن عبادۃ بن الصامت -رضيﷲ عنہ- قال: کان رسولﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یشغل، فإذا قدم رجل مہاجر علی رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم دفعہ إلی رجل منا یعلمہ القرآن، فدفع إلي رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم رجلا، فکان معي في البیت أعشیہ عشاء أہل البیت، فکنت أقرئہ القرآن فانصرف انصرافۃ إلی أہلہ، فرأی أن علیہ حقا، فأہدی إلي قوسا لم أر أجود منہا عودا، ولا أحسن منہا عطفا، فأتیت رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، فقلت: ما تری یا رسولﷲ فیہا؟ قال: جمرۃ بین کتفیک تقلدتہا، أو تعلقتہا۔(مسند أحمد بن حنبل ۵/ ۳۲۴، رقم: ۲۳۱۴۶، المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ، مکتبہ نزار مصطفی الباز ۶/ ۲۰۳۵، رقم: ۵۵۲۷)
لیکن متأخرین نے ضرورت کی وجہ سے ان سب پر اجرت لینے کو جائز لکھا ہے، مگر تلاوت قرآن اور ختم قرآن پر اجرت لینے کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے، جیسا کہ: ’’لاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا‘‘۔ [سورۃ البقرۃ: ۴۱] میں واضح ہے ؛ اس لئے متأخرین نے بھی تلاوت قرآن اور ختم قرآن پر اجرت لینے کو ہمیشہ کے لئے ناجائز لکھا ہے، اب اس کے بعد اصل سوالات کے جوابات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
(۱) جو شخص مستقل امام ہے اس کے لئے یہ شرط لگاناجائز ہے کہ ماہ رمضان میں چھٹی رکھیںگے اور چھٹیوں کی تنخواہ بھی عام دنوں کی طرح مکمل ملا کرے گی، اسی طرح رمضان میں اضافہ تنخواہ کی شرط لگانا بھی جائز ہے اور ایسی صورت میں یہ ختم قرآن کی اجرت نہیں ہوگی؛ بلکہ مستقل امامت کی اضافی تنخواہ ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ مدارس میں مدرسین کے لئے رمضان میں کام کرنے کی صورت میں ڈبل تنخواہ چھٹی کرنے کی صورت میں پوری تنخواہ کی شرط لگانا جائز ہوتا ہے اور ایسا عمل بھی ہوتا ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۱۷/ ۷۶، ۱۵/ ۵۲۵-۵۲۶)
أن رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم قال الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما۔ (ترمذي شریف، الأحکام، باب ذکر عن رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم في الصلح بین الناس، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۵۱، دارالسلام، رقم: ۱۳۵۲)
ویفتي الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۶، زکریا ۹/ ۷۶)
وبعضہم استثنی تعلیم الفقہ والإمامۃ … الخیزاخبزي یقول: في زماننا یجوز للإمام والمؤذن والمعلم أخذ الأجر۔ (تاتارخانیہ،، کتاب الأجارۃ، الفصل الخامس عشر في الاستئجار علی الطاعات، زکریا ۱۵/ ۱۲۸، رقم: ۲۲۴۲۲)
فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلثاء والجمعۃ، وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ۔ (شامي، کتاب الوقف، مطلب فی استحقاق القاضی والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ، زکریا ۶/ ۵۶۸، کراچی ۴/ ۳۷۲)
(۲) رمضان میں پورے رمضان تراویح پڑھانے کی دو شکلیں ہیں:
(۱) جو شخص رمضان میں صرف تراویح پڑھاتا ہے، جس میں ختم قرآن نہ ہو؛ بلکہ ’’الم ترکیف‘‘ وغیرہ چھوٹی سورتوں یا مایجوز بہ الصلاۃ قراء ت کے ذریعہ سے صرف بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھا دیتا ہے اور اس پر اجرت لیتا ہے، تو یہ جائز اور درست ہے؛ اس لئے کہ یہ عام نمازوں کی امامت کی طرح تراویح کی امامت کی اجرت ہے۔
وفي الروضۃ: وفي زماننا یجوز للإمام والمعلم أخذ الأجرۃ۔ (البحر الرائق، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۲/ ۳۵، کوئٹہ ۸/ ۲۰)
ویفتي الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۶، زکریا ۹/ ۷۶)
(۲) اگر اس تراویح میں قرآن ختم کرنے کی شرط پر اجرت طے ہوتی ہے، تو ’’لاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا‘‘کی وعید میں داخل ہوکر ناجائز اور حرام ہوگا۔
(۳) اس شکل میں متولی اور ذمہ داران مسجد کی طرف سے جو رقم دی جاتی ہے، وہ ’’المعروف کالمشروط‘‘ کی بنیاد پر در اصل ختم قرآن ہی کی اجرت ہے اور وہ ’’لاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا‘‘کے دائرہ میں داخل ہوکر ناجائز ہے، اسی طرح اگر ختم قرآن کے لئے عام لوگوں سے چندہ اکٹھا کیا جائے اور جمع کرکے حافظ کو پیش کیا جائے تو یہ بھی ناجائز ہے؛ اس لئے کہ یہ بھی اجرتہے، نیز اگر کوئی سرمایہ دار ہر سال ختم کے موقع پر حافظ کو کوئی رقم دیا کرتا ہو اور یہ معروف ہو تو اس کا لینا دینا بھی ممنوع ہوگا؛ البتہ اگر کسی جگہ یہ شکل پیش آئے کہ کوئی شخص حافظ صاحب سے تعلق اور محبت کی بنیاد پر بلا کسی شرط کے اتفاقا خاموشی سے خلوص ومحبت کے ساتھ انفرادی طور پر ہدیہ پیش کرے، جس میں ختم پراجرت کا کوئی شبہ نہ پایا جاتا ہو، تو اس انفرادی ہدیہ کو قبول کرنے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، تاہم بہتر یہی ہے کہ یہ ہدیہ عین ختم والے دن نہ دیا جائے، تاکہ اجرت کا شائبہ نہ پایا جائے۔
یجوز للإمام والمفتي قبول الہدیۃ، وإجابۃ الدعوۃ الخاصۃ … والأولیٰ في حقہم إن کانت الہدیۃ لأجل ما یحصل منہم من الإفتاء، والوعظ، والتعلیم عدم القبول لیکون علمہم خالصا ﷲ تعالیٰ، وإن أہدی إلیہم تحببا وتوددا لعلمہم وصلاحہم، فالأولی القبول۔ (شامي، کتاب القضاء، مطلب في حکم الہدیۃ للمفتي، زکریا ۸/ ۴۹، کراچی ۵/ ۳۷۳)(فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٤٢٦)
تفصیل دیکھئے:فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٥٧٧)نیز دیکھئے:امداد الفتاوی جدید۳٣٠/٢تا۳۷۰)مزید دیکھئے:معاوضہ علی التراویح)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
احمد نگر ہوجائی آسام
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے