روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟

سوال(۷۵۳):
قدیم ۱/۷۶۸- فتاویٰ رشیدیہ حصہ دویم ص:۹۸ پرایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کی روحیں شبجمعہ میں گھر نہیں آتیں یہ روایت غلط ہے اور اس کے خلاف نورالصدور ص۱۶۸ پر بروایت ابوہریرہؓ بایں فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ شب جمعہ کو مومنوں کی روحیں اپنے اپنے مکانوں کے مقابل کھڑی ہو کر پکارتی ہیں کہ ہم کو کچھ دو اور ہر روح ہزار مردوں اورعورتوں کو پکارتی ہے روایت کیا اس حدیث کو شیخ ابن الحسن بن علی نے اپنی کتاب میں اب عرض یہ ہے کہ صحیح معاملہ شرعاً کیا ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:
اول تو اس کی سند قابل تحقیق ہے۔ دوسرے برتقدیر ثبوت مقید ہے اذن کیساتھ اورحکم نفی دعویٰ عموم کے تقدیرپر ہے پس دونوں میں تعارض نہیں ۔(۱)(امداد الفتاوی ۴۶۸/۳)

واللہ اعلم

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

———————————————————————-

(۱) یہ مسئلہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ نے امداد المفتیین ترتیب جدید مکتبہ دار الاشاعت کراچی ص:۱۲۱ تا ۱۲۴؍ میں عمر وبکر کے معارضاتی سوال کے جواب میں کافی لمبا جواب تحریر فرمایا ہے، وہ تمام روایات بھی اس میں ہیں جن میں اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ مردوں کی روحیں شب جمعہ، یوم عاشوراء، یوم عید وغیرہ میں اپنے گھر آکر سوالات کرتی ہیں ۔
اور فتاوی دارالعلوم جدید ۵؍۴۵۹؍ میں اس کی تردید ہے اور حضرت مولانا عبد الحیؒ کی بات کی تائید ہے فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱؍۶۰۶، میرٹھ ۳؍۳۵۶؍ میں سائل نے سوال کیا کہ امداد المفتیین میں بکر نے جو حدیثیں اس کے ثبوت میں پیش کی ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں ؟ تو حضرت الاستاد مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے جواب دیا، وہ روایات اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیاجا سکے، آگے حضرت اپنی طرف سے جواب میں یہ الفاظ لکھتے ہیں :
 میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں – ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کوتمثل ہو کر ظاہر ہوجاتے ہیں ، مثلاً یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے یہ حقیقت نہیں ہوتی؛ بلکہ تمثل ہوتا ہے؛ کیونکہ ارواح کو اس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لئے وہاں مفید ہوسکتی ہیں ، یہی وجہ سے کہ ایصال ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس کو اصلی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے ۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱؍۶۰۷، میرٹھ ۳؍۳۵۷)
اب حضرت والا تھانویؒ نے اشرف الجواب میں جو تحریر فرمایا ہے وہ ملاحظہ فرمائیے حضرت فرماتے ہیں :

اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیاہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگان عذاب کیونکر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے، اشرف الجواب مکتبۃ دار الکتاب دیوبند ۲؍۱۵۶، جواب:۳۰؍ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتؒ اس کی تردید فرماتے ہیں ، فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوہیؒ نے تین جواب لکھے ہیں تینوں میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مردوں کی رووحوں کے گھر پر آنے کی روایتیں واہیہ ہیں اس پر عقیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے قدیم زکریا بکڈپو ۲۴۸؍ اس جواب پر حضرت مولانا سید احمد دہلویؒ مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتویؒ اور مولانا احمد ہزارویؒ، مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ، مولانا عبد اﷲ انصاریؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا ابو الکلامؒ، محمد اسحاق فرخ آبادیؒوغیرہم کے دستخطیں ثبت ہیں ۔
دوسرے جواب میں لکھتے ہیں کہ شب جمعہ اپنے گٰھر نہیں آتیں روایت غلط ہے فتاوی رشیدیہ دارالکتاب دیوبند ص:۲۴۹۔ 
شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے