قسطوں میں خرید وفروخت

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر:7

ســـــوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک گاڑی نقد میں پچاس ہزار روپیہ میں ملتی ہے اور ادھار یعنی قسطوں میں پچپن ہزار کی، کیا اس طرح قسطوں میں گاڑی لے سکتے ہیں، کیا دیا گیا زائد ۵؍ ہزار روپیہ سود تو نہیں ہوگا؟

                    باسمه سبحانه وتعالی
            الجــــواب وباللــــــه التـــوفــیـــق:

اگر مجلس عقد میں اُدھار قیمت طے ہوجائے اور اس میں کوئی فاسد شرط نہ لگائی جائے، تو اِس طرح کے معاملہ میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ بائع کو اختیار ہے کہ اُدھار کی قیمت نقد قیمت سے زیادہ رکھے۔

لأن للأجل شبها بالمبیع ألا یری أنه یزاد في الثمن لأجل الأجل۔ (الہدایۃ ۳؍۷۸)

البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط۔ (شرح المجلۃ ۱؍۱۲۷ رقم المادۃ: ۲۴۵ مکتبۃ إتحاد دیوبند، وکذا فی مجمع الأنہر ۳؍۱۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

وکذا إذا قال: بعتک هــذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول فإذا علم ورضی به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد، وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه معلوم عند العقد، وإن لم یعلم به حتی إذا افترقا لقدر الفساد۔ (بدائع الصنائع / في جہالۃ الثمن ۴؍۳۵۸ زکریا)

فقط واﷲ تعالیٰ اعلم

کتاب النوازل١۰

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند

https://t.me/jamashuda

t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
+917086592261

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے