کیا قبر پر مٹی ڈالتے وقت منہا خلقنکم پڑھنا جائز ہے۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

Qabar par mitti

مسئلہ نمبر73

السلام علیکم و رحمۃ اللہ
حضرات علمائے کرام و مفتیان شرع دین متین۔
قبر میں جب ہم مٹی ڈالتے ہیں تو منہا خلقناکم الآخر تک پڑھتے ہیں۔ہمارے علماء بھی یہ دعا سیکھاتے آرہے ہیں۔
کیا یہ دعا اس موقع پر پڑھنا شریعتِ مطہرہ سے ثابت ہے؟براہ مہربانی مدلل رہنمائی فرمانے کی زحمت گوارہ فرمائیں۔(مستفتی ولی الرحمن ہوجائی آسام)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:
فقہاء علیہ الرحمہ نے تصریح کی ہے کہ مذکورہ آیت کو قبر پر مٹی ڈالتے وقت پڑھنا مستحب ہے۔

دار الافتاء دارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے کہ
علامہ شامی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی علی جنازة ثم أتی القبر فحثی علیہ من قبل رأسہ ثلاثا اس کے بعد کوئی دعا نہیں ہے۔ پھر بعد میں الجوہرہ کے حوالہ سے لکھا ہے، ویقول في الحثیة الأولی منہا خلقناکم وفي الثانیة وفیہا نعیدکم وفي الثالثة ومنہا نخرجکم تارة أخری․ وقیل: یقول في الأولی اللہم جاف الأرض من جنبیہ وفي الثانیة اللہم افتح أبواب السماء لروحہ وفي الثالثة اللہم زوجہ من الحور العین وللمرأة اللہم أدخلھا الجنة برحمتک․ اتنا لکھنے کے بعد حدیث ملی جس کو حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر (ج:۱، ص:۱۶۴) میں حضرت ابوامامہ سے نقل کیا ہے، جس کو حاکم نے اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى الْقَبْرِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} ». قَالَ ثُمَّ لاَ أَدْرِى أَقَالَ: « بِسْمِ اللَّهِ وَفِى سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ۔

بہرحال ان دعاؤں کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، اور مستحب کے درجہ میں ہے کیونکہ ضعیف ہے اس لیے سنت وواجب لاگو نہ ہوگا۔ صرف بسم اللہ پڑھنے کی کوئی حدیث نظر سے نہیں گذری۔(جواب نمبر 16472)

وفي الحديث الذي في السنن: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حضر جنازة، فلما دفن الميت أخذ قبضة من التراب فألقاها في القبر ثم قال: { مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ } ثم [أخذ] أخرى وقال: { وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ } . ثم أخذ أخرى وقال: { وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى }(تفسیر ابن کثیر۳۴۵/۹سورة طه, مكتبة أولاد الشيخ للتراب)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ – يَعْنِى ابْنَ الْمُبَارَكِ – أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ عَنْعَلِىِّ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِى أُمَامَةَ قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى الْقَبْرِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} ».قَالَ ثُمَّ لاَ أَدْرِى أَقَالَ: « بِسْمِ اللَّهِ وَفِى سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ». أَمْ لاَ، فَلَمَّا بَنَى عَلَيْهَا لَحَدَهَا طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمُ الْجَبُوبَ، وَيَقُولُ: « سُدُّوا خِلاَلَ اللَّبِنِ ». ثُمَّ قَالَ: « أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَىْءٍ، وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ االْحَىّ(الفتح الربانی مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ ص۹۹دار احیاء التراب العربی)

قوله: (فحثى عليه) أي رمى على قبره بالتراب. (ثلاثاً) أي ثلاث حثيات. (رواه ابن ماجه) قال الحافظ في التلخيص (ص۱۶۵) بعد نقل هذا الحديث عن ابن ماجه: وقال أبوحاتم في العلل: هذا حديث باطل قلت (قائله الحافظ): إسناده ظاهره الصحة. قال ابن ماجه: حدثنا العباس بن الوليد الدمشقي ثنا يحيى بن صالح ثنا سلمة بن كلثوم ثنا الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة الخ، ليس لسلمة بن كلثوم في سنن ابن ماجه وغيرها إلا هذا الحديث الواحد، ورجاله ثقات، وقد رواه ابن أبي داود في كتاب "التفرد” له من هذا الوجه، وزاد في المتن أنه كبر عليه أربعاً، وقال بعده: ليس يروى في حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة أربعاً إلا هذا، فهذا حكم منه بالصحة على هذا الحديث. لكن أبوحاتم إمام لم يحكم عليه بالبطلان إلا بعد أن تبين له، وأظن العلة فيه عنعنة الأوزاعي وعنعنة شيخه”.(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح۴۵۶/۵ کتاب الجنائز،باب دفن المیت)

(قوله: ويستحب حثيه) أي بيديه جميعاً، جوهرة. قال في المغرب: حثيت التراب حثياً وحثوته حثواً: إذا قبضته ورميته. اهـ. ومثله في القاموس، فهو واوي ويائي فافهم (قوله: من قبل رأسه ثلاثاً)؛ لما في ابن ماجه عن أبي هريرة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة ثم أتى القبر فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثاً». شرح المنية. قال في الجوهرة: ويقول في الحثية الأولى:{منها خلقناكم} وفي الثانية:{وفيها نعيدكم} وفي الثالثة:{ومنها نخرجكم تارةً أخرى} وقيل: يقول في الأولى: اللهم جاف الأرض عن جنبيه، وفي الثانية: اللهم افتح أبواب السماء لروحه، وفي الثالثة: اللهم زوجه من الحور العين. وللمرأة: اللهم أدخلها الجنة برحمتك اهـ”.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين۱۴۳/۳کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجنائز دار الکتب العلمیہ بیروت) مستفاد کتاب النوازل۱۸۷/۱۷) فتاویٰ قاسمیہ ۱۹۷/۴و۲۲۴و۶۴۶)دار الافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر 16472)جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : 144008200615)

نیز آپنے جو ویڈیو بھیجا میں نے اسے بغور سنا اس ویڈیو میں اہل باطل نے جو کچھ کہا ہے وہ بہت ہی عجیب بات ہے۔
بدقسمتی سے آج بعض حلقوں کی جانب سے پوری شد ومد کے ساتھ یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ ضعیف حدیث قطعاً ناقابل اعتبار ہے، اس کا محل موضوع کی طرح ردی کی ٹوکری ہے، حجت صرف صحیح حدیث ہے، صحیح کے مصداق میں کچھ باشعور حضرات حسن کو تو شامل کر لیتے ہیں، ورنہ عام سطح کے لوگ اس کے بھی روادار نہیں ہیں، اور بعض غلو پسند طبیعتیں تو صحیحین کو چھوڑ کر بقیہ کتب حدیث کو۔ صحیح الکتاب الفلانی وضعیف الکتاب الفلانی جیسے عمل جراحی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اور اپنے اجتہاد کے مطابق اہم کتب حدیث کی حدیثوں کو صحیح اور ضعیف دوخانوں میں تقسیم کرکے شائع کیا جانے لگا ہے۔ فالی اللہ المشتکیٰ۔
نیز بعض لوگ فقہ کی متداول کتابوں میں ضعیف یا موضوع حدیثوں کو پاکر یہ گمان کر لیتے ہیں کہ امام مذہب کی دلیلیں اتنی ہی بودی ہیں، لہذا جب ضعیف ہوگئیں تو ان پر مبنی حکم بھی ضعیف ہے، اس لئے اس کو چھوڑ کر حکم شرعی کامداری صحیح حدیثوں پر رکھنا چاہئے۔اس کے جواب میں درج ذیل باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں:

اول: واضح رہے کہ فقہ کی متداول کتابوں میں پائی جانے والی حدیثیں ضروری نہیں کہ امام مذہب نے خود ان احادیث سے استدلال کیا ہو، بلکہ ان میں بہت سی وہ احادیث بھی ہوتی ہیں جن سے مصنف کتاب اپنے طور پر استدلال کرتے ہوئے اپنے امام کے مذہب کو مبرہن و مؤید کرتا ہے، لہذا کسی فقہی کتاب کے مصنف کا کسی حدیث کو بطور دلیل پیش کرنا اس بات کی قطعی دلیل نہیں کہ مذہب کی بنیا ضعیف حدیث پر ہے، ہوسکتا ہے کہ امام مذہب کے وہ رائے کسی صحیح و ثابت نص یا سنت پر مبنی ہو جو خبر واحد کے طور پر صحیح سند سے منقول ہو کر ہم تک نہ پہونچی ہو۔

دوم: یہ کہ اس طرح کی ضعیف حدیثوں میں جوضعف آتا ہے وہ ان اسانید کے اعتبار سے ہوتا ہے جو ہم کو کتب حدیث میں ملتی ہیں جن کے رجال عموما امام مذہب کے مابعد زمانہ کے ہوتے ہیں ۔اور اگر وہ رجال بالفرض ان ائمہ کے معاصر یا ان سے پہلے کے ہوں تب بھی یہ
ضروری نہیں کہ امام کے پاس یہ حد یث ان ہی روات کے طریق سے پہنچی ہو جن روات سے مرکب اسناد ہمارے سامنے ہے۔

مثلاً : حدیث ”ادرؤا الحدود بالشبهات ما استطعتم ( کہ جہاں تک ہو سکے حدود ( شریعت کی مقررہ سزاوں) کو واجب کرنے میں جلدی نہ کرو، جہاں تک گنجائش
ہو ٹالو ) یہ کتب حدیث میں ضعیف سندوں سے اخراج کی گئی ہے لیکن جب تتبع کیا گیا تو دیگر نصوص حدیث میں معنوی طور پر اس کے مؤیدات بہت ملے جس سے اس کے مضمون کے ثبوت میں کچھ بھی شبہ باقی نہیں رہتا۔

سوم : کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ضعیف حدیث واقعتاً امام مذہب ہی نے دلیل کے طور پر بیان کی ہوتی ہے لیکن حضرت امام کے پاس اس کے اتنے مؤیدات و شواہد ہوتے ہیں جو اس کوقوی اور قابل استدلال بنادیتے ہیں مگر ان دیگر مؤیدات و شواہد سے قطع نظر کرتے ہوئے حضرت امام صرف اسی حدیث کو دلیل کے طور پر اس لئے پیش کر دیتے ہیں کہ اس کے الفاظ کی دلالت متعلقہ مسئلہ پر راست اور صریح ہوتی ہے، ورنہ حکم کا مدار امام کے نزدیک صرف اسی ضعیف حدیث پر نہیں ہوتا، مثلا حدیث: "صلواة النهار عجماء“ اس لفظ سے یہ حدیث ضعیف ہے مگر اس کے مؤیدات نصوص میں بہت ہیں ۔

چہارم : کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ، اور امام نے اسی سے استدلال بھی کیا ہوتا ہے لیکن امام کے نزدیک حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہوتا ہے جیسا کہ امام نسائی ، امام ابو داود اور امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے کہ جب مسٔله باب میں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف حدیث ہی پرمل کیا جائے گا، وہ قیاس سے مقدم ہے، چنانچہ اس وقت فقیہ کا ضعیف حدیث پر عمل کرنا یا اس کے مطابق فتوی دینا دین و مذہب کو ضعیف بنیادوں پر مبنی کرنے کے مرادف نہیں ہوگا۔

الغرض فقہاء اسلام کی مخلصانہ کوششوں کونظرانداز کر کے از خودی صحیح اور مضبوط دلیلوں پر ایک جدید فقہ کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کرنا بہت بڑی حماقت ہے ، اور یہ کام درحقیقت سمندر کو کسی پیمانہ سے ناپنے کے بعد اس سے استفادہ کرنے کی کوشش کے مرادف ہے، تو سمندر کا ناپنا ممکن ہوگا اور نہ ہی اس سے کوئی استفادہ ہو سکے گا۔

آیئے ضعیف حدیثوں کی استدلالی حیثیت کا مختصراً جائزہ لیں۔

ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، البتہ فضائل اعمال ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ، چنانچہ ابن مہدی، امام احمد وغیرہم سے منقول ہے:

اذا روینا فی الحلال والحرام شددنا، واذا روینا فی الفضائل ونحوها تساهلنا(فتح المغیث، وظفر الامانی ص:۱۸۲ نقلاً عنہ)

بعض کے نزدیک ضعیف حدیث باب احکام میں بھی حجت ہے، جبکہ دوسرے بعض کے نزدیک سرے سے حجت نہیں۔

قال العلامة اللکنوی بعد ذکرہ الآراء الثلاثة فی المسئلة: ومنع ابن العربی العمل بالضعیف مطلقاً، ولکن قد حکی النووی فی عدة من تصانیفہ اجماع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل بہ فی فضائل الاعمال ونحوہا خاصة ،فہذہ ثلاثة مذاہب اھ(الاجوبة الفاضلة)

اور جمہور عملاً باب احکام میں بھی ضعاف کو کسی نہ کسی وجہ میں قابل عمل مانتے ہیں۔

جہاں تک احکامِ شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو جمہور محدثین وفقہاء کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے ،جبکہ ضعف شدید نہ ہو یعنی سند میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو، ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔

پہلی صورت
مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، مختلف مکاتب فکر کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
الخبر الضعیف عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ۔(المحلیٰ لابن حزم١٦١/٣)

یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔
چنانچہ:

۱-نماز میں قہقہہ سے نقض وضو والی حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے۔ آپ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔

۲- اکثر الحیض عشرة ایام یہ حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے، حنفیہ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔

۳- لامہر اقل من عشرة دراہم اس کے ضعف پر محدثین متفق ہیں اور حنفیہ نے قیاس نہ کرکے اس کو معمول بہ بنایا۔(اعلام الموقعین٣١/١تا٣٢)

۲- محقق ابن الہام رحمه الله عليه فرماتے ہیں: الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ضعیف جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔

(فتح القدیر باب النوفل١٣٩/١)

مثلاً :۱ :۔حاشیة الطحطاوی علی المراقی الفلاح وغیرہ میں مغرب کے بعد چھ رکعات (جنہیں صلاة الاوابین کہتے ہیں) کو مستحب لکھا ہے ،دلیل حضرت ابوہریرہ کی حدیث:
من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء عدلن لہ بعبادة ثنتی عشرة سنة۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو عمر بن ابی خثعم کے طریق سے روایت کرکے فرمایا :
حدیث ابی ہریرة حدیث غریب لانعرفہ الا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن ابی خثعم۔
امام بخاری نے عمر کو منکر الحدیث کہا اور بہت ضعیف قرار دیا، حافظ ذہبی نے میزان میں فرمایا:

لہ حدیث منکر ان من صلی بعد المغرب ست رکعات ووہّاہ ابو زرعہ۔

۲:۔ مردہ کو دفن کرتے وقت تین لپ مٹی ڈالنا، پہلی بار منہا خلقناکم دوسری بار فیہا نعیدکم اور تیسری بار ومنہا نخرجکم تارة اخریٰ پڑھنے کو(طحطاوی ص:۶۱۰) میں مستحب لکھا ہے، دلیل حاکم واحمد کی حدیث بروایت ابو امامہ کہ جب حضرت ام کلثوم بنت النبیﷺکو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہﷺ نے پڑھا:

منہا خلقناکم الخ آخر میں بسم اللّٰہ، وفی سبیل اللّٰہ، وعلی ملة رسول اللّٰہ

کی زیادتی ہے، اس حدیث کی سند بہت ہی ضعیف ہے، ذہبی نے تلخیص میں کہا ہے۔وہو خبر واہ لان علی بن زید متروک۔

ب:
امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک مرسل بمعنی عام منقطع حجت ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کی معتمد ترین کتاب نشر النبود علی مراقی السعود میں ہے:،

،علم من احتجاج مالک بالمرسل ان کلاً من المنقطع والمعضل حجة عندہم لصدق المرسل بالمعنی الاصولی علی کل منہا۔۶۳/۲کما فی التعریف باوہام من قسم السنن الی صحیح وضعیف للدکتور محمود سعید ممدوح)

ج:
۱- مرسل حدیث امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اگر باب میں صرف مرسل ہی ہو تو وہ اس سے احتجاج کرتے ہیں، حافظ سخاوی نے ماوردی کے حوالہ سے یہ بات فتح المغیث میں نقل کی ہے۔ (۱/۲۷۰)

۲- حافظ ابن قیم نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے صید٫٫وج”(طائفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ، شوافع کے نزدیک وہاں شکار کرنا منع ہے)۔ کی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔ حرم مکی کے اندر اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کے جواز والی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔

من قاء او رعف: فلیتوضأ، ولیبن علی صلاتہ

کو اپنے ایک قول کے مطابق باوجود ضعف کے قیاس پر ترجیح دی۔(اعلام الموقعین ۱/۳۲)

د:۔حنابلہ
۱- ابن النجار حنبلی نے شرح الکوکب المنیر ۲/۵۷۳ میں امام احمد کایہ قول نقل کیا ہے:

لست اخالف ما ضعف من الحدیث اذا لم یکن فی الباب ما یدفعہ۔

یعنی باب میں ضعیف حدیث ،ہو اور اس کے معارض کوئی دلیل نہ ہو تو میں اس کو چھوڑ تا نہیں ہوں۔
۲- حافظ ہروی نے ذم الکلام میں امام عبد اللہ بن احمد سے نقل کیا ہے کہ :میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ایک شخص کو مسئلہ درپیش ہے، اور شہر میں ایک محدث ہے جو ضعیف ہے (ایک روایت میں، جو صحیح وسقیم میں تمیز نہیں کرپاتا) اور ایک فقیہ ہے جو اہل رائے وقیاس میں سے ہے، وہ کس سے مسئلہ پوچھے؟ فرمایا: اہل رائے سے تو پوچھے نہیں، کیونکہ ضعیف الحدیث ،قوی الرأے سے بہتر ہے۔ (ذم الکلام۱۸۹/۲تا۱۸۰)

۳- فقہ حنبلی کی مستند ترین کتاب المغنی میں ابن قدامہ نے لکھا کہ:
النوافل الفضائل لایشترط صحة الحدیث فیہا
نیز امام کے خطبہ کے دوران حاضرین کے احتباء (اس طرح بیٹھنا کہ سرین زمین پر ہو، دونوں گھٹنے کھڑے ہوں اور دونوں بازؤں یا کسی کپڑے وغیرہ سے انہیں باندھ لیا جائے) کی بابت لکھا کہ کوئی حرج نہیں،کیونکہ چند ایک صحابہ سے مروی ہے، لیکن بہتر نہ کرنا ہے، کیونکہ حضورﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے امام کے خطبہ کے دوران حبوة سے منع فرمایا ہے، اس لئے اگرچہ حدیث ضعیف ہے ،افضل حبوة کا ترک ہی ہے۔
(المغنی ۲/۸۸،۲۰۶)

ھ:۔ فقہاء محدثین
۱- حافظ ذہبیؒ نے امام اوزاعی کے متعلق لکھا کہ: وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء ۷/۱۱۴)

۲- امام ابوداود کے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا :

ویخرج الاسناد الضعیف اذا لم یجد فی الباب غیرہ لانہ اقوی عندہ من رأی الرجال۔

یعنی امام ابوداود کا مذہب ہے کہ جب کسی باب میں انہیں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ملتی تو اسی کا اخراج کر لیتے ہیں، کیونکہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس سے قوی تر ہے۔

و:۔ ظاہریہ
ابومحمد ابن حزم ظاہری جن کا تشدد مشہور ہے، محلی ۳/۶۱ میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے سے متعلق حدیث بروایت حسن بن علی لائے، اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ: یہ حدیث اگرچہ اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے، لیکن چونکہ رسول اللہﷺ سے اس سلسلہ میں اور کوئی حدیث ہمیں نہیں ملی ،اس لئے ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔

دوسری صورت
اگر ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہو تو اس کو تمام حضرات اختیار کرتے ہیں، چنانچہ امام نووی نے اذکار میں عمل بالضعیف کی استثنائی صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

الا ان یکون فی احتیاط فی شئ من ذلک کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراہة بعض البیوع والانکحة، فالمستحب ان یستزہ عنہ۔(شرح الاذکار۶۸/۱تا۷۸ کما فی التعریف باوہام الخ)

اس کی شرح میں ابن علان نے مثال دی کہ جیسے فقہاء کرام نے دھوپ سے گرم کئے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ لکھا ہے، حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی بناء پر جو ضعیف ہے۔

تیسری صورت
اگر کسی آیت یا صحیح حدیث میں دو یا دو سے زائد معنوں کا احتمال ہو اور کوئی ضعیف حدیث ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو راجح قرار دیتی ہو، یا دو یا چند حدیثیں متعارض ہوں اور کوئی حدیث ضعیف ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتی ہو تو علماء امت اس موقع پر ضعیف حدیث کی مدد سے ترجیح کا کام انجام دیتے ہیں۔

کچھ اور صورتیں
اس کے علاوہ کسی ثابت شدہ حکم کی مصلحت وفائدہ معلوم کرنے کے سلسلہ میں بھی ضعیف کا سہارا لیا جاتا ہے، نیز حدیث ضعیف اگر متلقی بالقبول ہوجائے اور اس کے مطابق فقہاء یا عام امت کا عمل ہوجائے تو ضعیف، ضعیف ہی نہیں رہتی اور اس کے ذریعہ وجوب اور سنیت تک کا ثبوت ہوتا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے : اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمة الفقہاء للشیخ محمد عوامة اور الاجوبة الفاضلة کے آخر میں شیخ حسین بن محسن کا مقالہ۔
سید احمد بن الصدیق الغماری المالکی رحمہ اللہ کی اس چشم کشا عبارت کے ترجمہ پر اس کڑی کو یہیں ختم کیا جارہا ہے فرماتے ہیں:
احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ، اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی، ان میں ایک تعداد منکر، ساقط، اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی، البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے بعض کے متعلق اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے بعض کے متعلق یہ قیاس کے موافق ہے مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے، کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی، اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو، یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ، لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے، ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔(المثنونی والتبار۱۸۰/۱تا۱۸۱ کما فی التعریف)

خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول ہے تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی،اس اعتبار سے سے صورت مسئولہ میں قبر پر مٹی ڈالتے وقت ذکر کردہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج ہونا نہیں چاہیے۔(تصیل کیلئے دیکھئے حدیث اور فہم حدیث ۴۳۹تا۴۷۵, مکتہ عثمانیہ دیوبند سہارنپور یوپی)احادیث ضعیفہ کی استدلالی حیثیت ,از مفتی شعیب اللہ خان صاحب،شعبہ تحقیق واشاعت) تحقیق الحدیث الضعیف فی کلام الائمہ،از مفتی شعیب اللہ خان صاحب،شعبہ تحقیق واشاعت)

عبارت ملاحظہ فرمائیں

أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : ” إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال”.(النكت على مقدمة ابن الصلاح۳۰۸/۲مکتبه أضواء الصلف الرياض)

قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب(فتح المغيث١٥٤/٢ مکتبه دار المنهاج الرياض)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
٦ذی الحجہ ۲۴۴۱؁ھ م ١٧ جولائی ۱۲۰۲؁ء بروز ہفتہ

تائید کنندگان
مفتی محمد اویس احمد القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی عفی عنہ
مفتی محمد سرفراز رحمانی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے